انگوٹھے کا نشان

پیر 11 مئی 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

پہلے ہی بہت سے عوامی حلقوں کی طرف سے کہا جارہا تھا کہ عمران خان کی چار حلقوں کی رٹ کے پیچھے اصل مقصد پورے الیکشن کو ہی متنازعہ بنانا ہے۔ یہ حقیقت اب کھُل کر سامنے آچُکی ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ الیکشن کے دوران یا الیکشن کے بعد ووٹوں کی گنتی کے دوران تحریک انصاف کے پولنگ ایجنٹوں نے جعلی ووٹنگ یا دھاندلی کی کوئی شکایات نہیں کی اور نہ ہی ان پولنگ ایجنٹوں نے شکایت کی کہ ان کو پریذائڈنگ افسروں کی طرف سے دیئے گئے نتائج اور الیکشن کے نتیجے میں کوئی فرق ہے۔

عمران خان اب تک یہ بھی نہیں بتا سکے کہ اس وقت کے صدر آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کی نامزد کردہ نگران حکومتوں ، اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن، فوج اور آئی ایس آئی کے سر براہوں کو نواز شریف سے کیا ہمدردی تھی کہ وہ ان کے لئے الیکشن میں دھاندلی کرتے رہے۔

(جاری ہے)

اور چیف جسٹس نے کس طرح دھاندلی کر وائی۔ اب سارا زور نادرا کی رپورٹوں پر لگایا جارہا ہے۔

نادرا کی رپورٹوں پر اصرار کرنے اور دھول اڑانے والے خود یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ۲۰۱۳ء کے انتخابات پاکستان میں ہونے والے دیگر تمام انتخابات کی طرح بائیومیٹرک طریقہ کار پر نہیں ہوئے تھے۔ ووٹنگ کے لئے مینول طریقہ کار اختیار کیا گیا تھا ، جِس کے تحت ووٹر کے انگوٹھے پرناخن کے قریب انمٹ سیاہی کا نشان لگایا جاتا ہے اورانگوٹھے کی دوسری طرف سیاہی لگا کر انگوٹھے کا نشان بیلٹ پیپر کے فوائل پر ثبت کیا جاتا ہے۔

فنگر پرنٹنگ کی معمولی سی جانکاری رکھنے والا شخص بھی یہ بات جانتا ہے کہ اگر انگوٹھے کا نشان ثبت کرتے وقت کاغذ پر دباوٴ کم پڑے یا انگوٹھے کی پوریں مکمل طور پر کاغذ پر ثبت نہ ہوں یا انگوٹھے پر سیاہی صحیح طرح نہ لگ سکے تو اس نشان کو کمپیوٹر سوفٹ ویئر پر محفوظ نشان سے کبھی بھی میچ نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ تو ایک طرف رہا اگر وہ شخص جسکے انگوٹھے کا نشان کمپیوٹر سوفٹ ویئر پر محفوظ ہے اگر اس شخص کا انگوٹھا دوبارہ بائیو میٹرک مشین پر رکھوا کر دیکھا جائے تو وہی مشین اُس وقت تک اس نشان کو شناخت نہیں کرے گی جب تک اس انگوٹھے کی پوریں بغیر کِسی نشان یا زخم کے صحیح حالت میں نہ ہوں اور انگوٹھے کو صحیح طور پر مشین کے گلاس ڈیٹیکٹر پر نہ رکھا جائے۔

اِس بات کا مشاہدہ ہر وہ پاکستانی کرتا ہے جو نادرا سے اپنے شناختی کارڈ یا پاسپورٹ کی تجدید کے لئے جاتا ہے۔ نادرا کے دفاتر جانے والے لوگوں کو بار بار اپنی انگلیاں اور انگوٹھے صاف کرنے پڑتے ہیں اور بائیو میٹرک مشین کے گلاس ڈیٹیکٹر پر رکھنے پڑھتے ہیں تب جاکر مشین سبز بتیاں جلا کر او کے کرتی ہے۔ ایسا ہی تجربہ امریکا، برطانیہ اور یورپ کا ویزہ اپلائی کرنے والوں کو بھی ہوتا ہے کیونکہ یہ ممالک درخواست دہندگان کی انگلیوں اور انگوٹھوں کے نشان ریکارڈ کرتے ہیں ۔

ان ترقی یافتہ ممالک کی جدید مشینوں پر بھی انگلیوں کے نشان لینے میں کئی منٹ لگ جاتے ہیں۔ بائیومیٹرک کا ایسا ہی تجربہ دنیا کے اکثر ممالک کے ایئر پورٹوں پر بھی ہوتا ہے ۔ ایسا ہی تجربہ دنیا کے کئی ممالک کے ائر پورٹوں پر سیلف امیگریشن کے لئے الیکٹرونک گیٹ کارڈ استعمال کرنے والوں کو بھی ہوتا ہے ، جب کئی بار کمپیوٹر مشین انگوٹھے کے نشان کو شناخت کرنے سے انکار کر دیتی ہے اور مسافر کو کئی بار مشین کی حدود سے پیچھے ہٹ کر واپس آنا پڑتا ہے اور دوبارہ مشین پر انگوٹھا رکھنا پڑتا ہے۔

اِسی طرح کے مِس میچ سے نمٹنے کے لئے اب اکثر ممالک میں تمام انگلیوں اور انگوٹھوں کے نشان لئے جاتے ہیں تاکہ کنفیوژن کی صورت میں اکثریتی نشانوں کی مماثلت کا کلیہ اپنایا جاسکے۔ فارینسک سائنس کے ماہرین یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ چند منٹوں کے وقفے سے لئے گئے ایک ہی انگوٹھے کے نشانوں میں فرق ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم کی فارینسک تحقیقات کرنے والے سراغ رساں انگلیوں کے نشانات کی مدد سے مجرم کی شناخت کے لئے ہمیشہ ماہرین کے مشورے (ایکسپرٹ اوپنین) کے محتاج ہوتے ہیں اور یہ عمل کافی پیچیدہ ہوتا ہے اور اسکا دارومدار ماہر کی ججمنٹ پر ہوتا ہے۔

ان حقائق کے مدِ نظر یہ کس طرح ممکن ہے کہ الیکشن والے دن نیم تربیت یافتہ اور غیر موٹیویٹڈ الیکشن عملہ ، نیم خواندہ پاکستانیوں کے انگوٹھوں کے نشان ایسی مہارت اور تسلی سے لگوائے گا کہ دو سال کے بعد بھی نادرا ، ان نشانوں کی تصدیق کر سکے گا۔ یہ وہی نادرا ہے جو سامنے موجود شخص کے زندہ انگوٹھے کی شناخت بھی کئی بار کوشش کرکے اور کئی منٹ لگا کر کرتا ہے۔

اور اگر نادرا ان نشانات کی تصدیق نہیں کرتا تو اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ ووٹ غلط ڈالے گئے یا دھاندلی ہوئی۔ کیا ووٹر کی تصدیق کرنا نادرا کی ذمہ داری تھی یا ہے؟ کیا نادرا کا عملہ پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹروں کی تصدیق کے لئے موجود تھا؟ جب ووٹنگ ہورہی تھی تو ایک ایک ووٹر کو شناخت کرنے اور ایک ایک ووٹ پر جھگڑنے والے تحریک انصاف اور دیگر پارٹیوں کے پولنگ ایجنٹ کہاں سورہے تھے؟ کیا تحریک انصاف نے ستر سے زائد حلقوں سے ضمانتیں ضبط ہونے کے بعد الیکشن ٹریبیونلز میں درخواستیں دائر کیں؟ کیا تحریکِ انصاف نے کسی بھی عدالتی فورم پر بتایا کہ اس کے پاس موجود پریزائیڈنگ افسروں کی دی گئی ووٹنگ رسیدوں اور جیتنے والے امیدواروں کے ووٹوں میں کوئی فرق ہے؟ جب الیکشن ہی بائیو میٹرک طریقے پر نہیں ہوئے تو اس کی بنیاد پر نتائج کو کِس طرح متنازعہ بنایا جاسکتا ہے۔

یہ بات لِکھ لیجئے کہ اگر پشاور کا حلقہ جہاں سے عمران خان جیتے تھے ، اس حلقے کے ووٹوں کو بھی نادرا سے تصدیق کر وایا جائے تو رزلٹ ویسا ہی نکلے گا جو کسی بھی اور حلقے کا ہوگا۔ تحریکِ انصاف نادیدہ اشاروں پر جو دُھول اُڑا رہی ہے اسکا نتیجہ ملک کے حق میں ہر گز اچھا نہیں ہے۔ اگر مئی ۲۰۱۳ء کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی تو۲۲ اگست ۲۰۱۳ء کو فوج، میڈیا اور عدلیہ کی کڑی نگرانی میں ہونے والے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ضمنی انتخابات میں تحریکِ انصاف کو شِکست کیوں ہوئی؟ سیالکوٹ میں پورا زور لگانے کے باوجود ضمنی انتخاب میں شِکست کیوں ہوئی؟ ننکانہ صاحب میں حال ہی میں شِکستِ فاش کیوں ہوئی؟ این اے ۲۴۶ کراچی میں بھاری مارجن سے شِکست کیوں ہوئی؟ اور سب سے بڑھ کر کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں شِکست کیوں ہوئی؟ یا درہے کہ الیکشن ۲۰۱۳ سے پہلے تحریکِ انصاف ووٹر لسٹوں کا رونا روتی تھی۔

نئی ووٹر لسٹیں بننے کے بعد جب پچھلے دورِ حکومت میں ۲۰۱۲ میں پنجاب میں کئی حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے تو شِکست تحریکِ انصاف کا مقدر تھی۔ اس کے بعد تحریک انصاف کا رونا آزاد الیکشن کمیشن کا قیام بن گیا اور جب عمران خان کے مشورے سے فخرالدین جی ابراہیم کی سربراہی میں قائم کردہ آزاد الیکشن کمیشن کی زیرِ نگرانی انتخابات ہوئے تو نتائج تسلیم کرنے کے بجائے دھاندلی کا شور مچا دِیا۔

اِس سے صاف ظاہر ہے کہ خان صاحب کو ہر قیمت پر مکمل اقتدار چاہئیے ، وہ اقتدار چاہے امپائر کی انگلی سے آئے یا منصف کے ہتھوڑے سے ، عوام کا فیصلہ خان صاحب کو کِسی صورت منظور نہیں ہے۔ خان صاحب اپنے بچوں کے وطن سے ہی سبق حاصل کریں، جہاں کے سیاستدانوں نے نہ صرف شِکست تسلیم کی بلکہ شِکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے فوراً اپنے پارٹی عہدوں سے بھی مستعفی ہوگئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :