
ٹیکس مگر کیسے
جمعہ 15 مئی 2015

شاہد سدھو
(جاری ہے)
ملک کے مختلف شہروں کی مارکیٹوں، شاپنگ پلازوں اور بازاروں میں آگ لگنے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے ہر واقعے کے بعد متاثرہ تاجر حضرات کے حکومت سے نقصان کی تلافی کے مطالبات سامنے آتے ہیں اور حکومت معاوضوں کے اعلانات کرتی رہتی ہے۔ بعض صورتوں میں حکومت بھاری معاوضہ ادا کرتی ہے جیسا کہ کراچی میں محرم کے دوران ہنگامہ آرائی میں جلنے والی دوکانوں کے معاملے میں ہُوا۔ اِس سلسلے میں راقم کی تجویز ہے کہ حکومت نقصان کی تلافی کے لئے معاوضے کا اعلان کرتے ہوئے دوکان کے مالک کے جمع کرائے گئے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس گوشواروں کی مدد سے کاروبار کی مالیت کا اندازہ لگائے اور اسی شرح سے نقصان کا تخمینہ لگاتے ہوئے معاوضے کا فیصلہ کرے۔ تخمینہ لگانے کے اِس شفاف طریقے پر خدا ترس، دیانتدار اور محب وطن تاجروں کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور جھوٹوں پر آخرت کے ساتھ ساتھ اِس فانی دنیا میں بھی مناسب لعنت کا انتظام ہو سکے گا۔
اوپر لکھی گئی بات کو ذرا اور آگے بڑھاتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے وطن کے خدا ترس، دیانتدار اور محب وطن تاجر حضرات کافی سمجھدار بھی ہیں، لِہٰذا کِسی ناگہانی آفت سے نمٹنے کے لئے اپنی فیکٹریوں، دوکانوں ، ہوٹلوں، ریستورانوں اور مالِ تجارت کی انشورنس بھی کروا لیتے ہیں۔ راقم کی تجویز ہے کہ انشورنس کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ انشورنس کی کل مالیت ، اِن تاجر حضرات کے جمع کرائے گئے انکم ٹیکس ، سیلز ٹیکس ، کارپوریٹ ٹیکس گوشواروں ( کئی صورتوں میں دولت ٹیکس گوشوارے بھی ) میں اثاثوں کی دی گئی مالیت سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ مثال کے طور پر اگر تاجر زید حکومتی گوشواروں میں اپنے مالِ تجارت کی قیمت بیس لاکھ ظاہر کرتا ہے تو انشورنس کمپنی کو بیس لاکھ سے زائد مالیت کی انشورنس ہر گز نہیں کرنی چاہئیے۔
ذاتی حیثیت میں خدمات فراہم کرنے والے افراد بشمول، وکیل، ڈاکٹر،آرکیٹیکٹ، میکینک حضرات کو مکمل طور پر ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ان حضرات کے لائف اسٹائل اور ادا کردہ انکم ٹیکس کے تقابل کا انتظام رکھا جائے اور وقتًا فوقتًا چیک کیا جائے۔ یہ تقابل کئی طرح سے ہوسکتا ہے۔ اِسی سال جنوری میں راقم کو ایک اطالوی دوست نے بتایا کہ وہ اپنی لینڈ روور گاڑی میں بذریعہ سڑک اٹلی سے سویٹزر لینڈ جارہا تھا ، جب وہ اٹلی کی سرحد پر پہنچا تو بارڈ ر گارڈز نے کمپیوٹر سسٹم پر یہ چیک کرنے کے لئے اسکو روک لِیاکہ کیا اس کی آمدنی اورانکم ٹیکس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لینڈ روور گاڑی افورڈ کر سکتا ہے۔ جب ملک میں نادرا اور پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ جیسے ادارے حیرت انگیز ڈیٹا بیس مرتب کر چکے ہیں تو ٹیکس کلچر کو بڑھانے کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کوئی مشکل ہدف نہیں ہے۔
معیشت کو دستاویزی بنانے کے لئے ہر سال کے لئے سیکٹر وائز (شعبہ جاتی) اور علاقہ کی بنیاد پر اہداف مقرر کئے جائیں۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ اسلام آباد شہر میں کوئی رکشہ داخل نہیں ہوسکتا ، اسی طرح علاقہ جاتی ٹیکس بنیاد کے تحت یہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس شہر میں رسید کے بغیر کسی قسم کی پرچون اور تھوک تجارت نہیں ہوسکتی یا شعبہ جاتی ٹیکس بنیاد کے تحت یہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ لاہور شہر میں ہر ریسٹورنٹ پکی رسید جاری کرنے کا پابند ہوگا۔ اِس طرح شعبہ اور علاقہ جاتی ٹیکس اہداف کے تعین سے معیشت کو بتدریج دستایزی بنانے کا عمل آسان ہوجائے گا اور چند سالوں میں ملک بھر میں تمام شعبوں اور علاقوں کی معیشت کو دستاویزی بنایا جا سکے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شاہد سدھو کے کالمز
-
مشرقی پاکستان اور ایک بنگالی فوجی افسر کا نقطہ نظر
بدھ 15 دسمبر 2021
-
مشرقی پاکستان اور جنرل ایوب خان
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
مشرقی پاکستان اور اسکندر مرزا
منگل 7 دسمبر 2021
-
سیاسی حقیقت
ہفتہ 13 مارچ 2021
-
کون کتنا ٹیکس دیتا ہے
ہفتہ 6 مارچ 2021
-
جہان درشن
ہفتہ 27 فروری 2021
-
سقوطِ مشرقی پاکستان نا گزیر تھا؟
بدھ 16 دسمبر 2020
-
معجزے ہو رہے ہیں
جمعہ 4 دسمبر 2020
شاہد سدھو کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.