سسکتا کراچی ، تڑپتا حیدر آباد

پیر 23 نومبر 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

اِس بات کو رہنے دیجئے کہ اگر آپ نے مشرقِ وسطیٰ، مشرقِ بعید اور یورپ کے کئی چھوٹے بڑے شہر دیکھ رکھے ہیں۔ اِس بات کو بھی رہنے دیجئے اگر آپ نے اسلام آباد اور لاہور میں کچھ وقت گذارا ہے۔ اگر آپ کا گزر کبھی فیصل آباد، راول پنڈی، ملتان ، پشاور، ایبٹ آباد، بہاول پور اور سیالکوٹ سے بھی ہوا ہے تو آپ کے ذہن میں ایک رواں دواں شہر کا تصور ضرور ہوگا۔

اگر آپ عروس البلاد کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کے چند بڑے شہروں میں شامل ہے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو شہروں کے بارے میں قائم آپ کے تصور کو ایک بڑا جھٹکا لگنے والا ہے۔ صفائی نصف ایمان پر یقین رکھنے والے ملک کا سب سے بڑا شہر شاید دنیا کے سب سے بڑے کچرہ گھر کا منظر پیش رہا ہے۔ قائد ا عظم انٹر نیشنل ایئر پورٹ سے نکلتے ہی ناقص ڈیزائن اور غیر معیاری میٹیریل سے بنی ہوئی ، دھواں اڑاتی بسوں اور رکشوں سے اٹی ہوئی، سڑک آپ کا موڈ برباد کرنے کے لئے موجود ہے۔

(جاری ہے)

ایئر پورٹ کے عین سامنے کریہہ صورت پلازے اپنے اکھڑے ہوئے رنگ اور پلاسٹر اور رستی ہوئی سیوریج پائپوں کے ساتھ بے شمار کالک اور دھوئیں سے لبریز موٹر میکینک دکانوں، چھپر ہوٹلوں اور پان سگریٹ کے کھوکھوں کے جلو میں کھڑے ہزاروں ملکی اور چند غیر ملکی مہمانوں کو کراچی میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہاں سے آپ کِسی بھی سمت میں روانہ ہوجائیں جا بجا کوڑے کے ڈھیر اور ابلتے ہوئے گٹر آپ کا استقبال کرنے کے لئے موجود ہیں۔

خستہ حال پلازوں کے اکھڑے ہوئے رنگ او ر سیوریج پائپ اور شہر بھر میں چھائے ہوئے دھوئیں کے سیاہ بادل شہر کے منظر نامے کا مستقل حِصہ ہیں۔ گڑھوں سے بھرپور ٹوٹی ہوئی سڑکیں جو لین مارکنگ جیسی عیاشی سے مکمل محروم ہیں ، شہر کا خاصہ ہیں۔ محسوس ہوتا ہے جیسے ہریالی سے تو اِس شہر کو چڑ ہے۔ لینڈ اسکیپنگ، سڑکوں کے درمیان اور آس پاس گھاس کا تو نام و نشان نظر نہیں آتا۔

گٹروں کا پانی آپ کو شہر کے اس مرکزی علاقے میں بھی نظر آئے گا جہاں صوبے کے حکمرانوں کی رہائش گاہیں، فائیو اسٹار ہوٹلز اور اہم سرکاری اور نجی اداروں کے دفاتر قائم ہیں۔ اس اہم علاقے میں فٹ پاتھ پر گری ہوئی تاریں اور تاروں کے گچھے آپ کو نظر آئیں گے، بتایا گیا کہ یہ صورت حال کئی مہینوں سے ہے اور وجہ سرکاری اداروں کا آپس کا تنازعہ ہے۔ شہر میں صفائی ستھرائی کی ذمہ دار بلدیہ کراچی کا سالانہ بجٹ تینتیس ارب ساٹھ کروڑ سے زائد ہے ۔

یعنی ہر ماہ تقریباً تین ارب روپے کا بجٹ اس شہر کی صفائی ستھرائی اور حالت بہتر بنانے کے لئے بلدیہ کراچی کے پاس موجود ہوتا ہے۔ یہ رقم اس اربوں روپوں کی اسپیشل گرانٹ کے علاوہ ہے جو سڑکوں سمیت بہت سے منصوبوں کی تعمیر کے لئے صوبائی اور وفاقی حکومتیں فراہم کرتی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ شہر ی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں میں ایک سیاسی جماعت کے حلف یافتہ کارکنان کو بڑی تعداد میں افسران اور ورکرز کے طور پر بھرتی کیا جاتا رہا ہے۔

یہ کارکنان اکثر ڈیوٹی سے غیر حاضر رہتے ہیں اور حاضر ہونے کی صورت میں بھی اپنے فرائض ادا نہیں کرتے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی حالت افسوس ناک ہے اور شہر اور صوبے سے ووٹ لینے والے سیاستدانوں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں۔ شہر کے رہائشیوں کا رویہ بھی کافی افسوس ناک ہے۔ محسوس ہوتا ہے جیسے اس شہر کے باشندے بنیادی سِوک سینس سے بھی محروم ہیں۔

اگرچہ اکثر پلازوں میں مکینوں کی یونین موجود ہوتی ہے جو ایک معقول رقم ہر ماہ پلازے کے مکینوں سے وصول کرتی ہے۔ اِس یونین کا کام پلازے کی صفائی ستھرائی وغیرہ ہوتا ہے ، مگر یہاں بھی حالات نا گفتہ بہ ہی نظر آتے ہیں۔ پلازوں کے مکین اپنے فلیٹوں میں اندرونی طرف سے تو رنگ و روغن وغیرہ کرواتے رہتے ہیں مگر ان لاکھوں لوگوں کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی یا شاید اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے کہ کم از کم پانچ سات برس بعد ہی سہی چندہ جمع کرکے پلازے کا بیرونی رنگ و روغن بھی کروا لِیا جائے۔

اگر آپ کا ارادہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد جانے کا ہے تو ایک اور شاک آپ کا منتظر ہے۔ سپر ہائی وے سے جب آپ قاسم آباد کی طرف سے شہر میں داخل ہوں گے تو سڑک کے درمیان میں آپ کو گندے پانی اور کچرے سے بھرا ہوا ایک نالہ نظر آئے گا، بتا یا گیا کہ یہ گندہ نالہ در اصل ایک نہر ہے جو کِسی وادھومل کے نام سے منصوب ہے اور وادھو واہ (نہر) کہلاتی ہے۔

گاڑی کے شیشے اوپر کر کے آپ اِس ”نہر“ کے پاس سے با آسانی گذر سکتے ہیں۔ تھوڑی ہی دور جانے کے بعد آپ کو ٹھاٹھیں مارتی اور باس اڑاتی پانی کی ایک جھیل نظر آئے گی۔ بتا یا گیا بدبودار اور سڑے ہوئے پانی سے بھری یہ جھیل دراصل سیم و تھور اور بارشوں کا پانی ہے جو گذشتہ تین دہائیوں سے منتظر ہے کہ کِسی ”حق پرست “ کو جوش آئے اور وہ اس گندے پانی کی نکاسی کا بندوبست کر ے۔

یہاں سے سیدھے آگے بڑھتے جائیں آپکو مختلف فیشن برانڈز اور غیر ملکی اور مقامی فوڈ چینوں کے فوراً بعد کئی پہاڑ اور پہاڑیاں ملیں گی۔ کچرے کے یہ پہاڑ بھی ہیبت سے سمٹ کر رائی ہونے کے لئے دہائیوں سے اپنے ” حق پرست“ کے انتظار میں ہیں ۔ جیسے ہی آپ شہر کے مرکزی اور کاروباری علاقے میں پہنچیں گے ابلتے گٹروں، ٹوٹی گلیوں اور سب کے سنگ سنگ چلتی گدھا گاڑیوں اور رکشوں کے درمیاں بدبو سے بوجھل فضاء آپ کی منتظر ہوگی ۔

بتایا گیا کہ یہ ابلتے گٹر ، کچرے کے ڈھیر اور ٹوٹی گلیاں کئی برسوں سے اِس انتظار میں ہیں کہ کوئی بھٹو زندہ ہو کر آئے اور شہر کو اسکی وہ شامیں واپس لوٹادے جنکا ذکر اب صرف پرانی کتابوں میں ملتا ہے۔
پاکستان کے سارے شہر و زندہ رہو پائیندہ رہو
روشنیوں رنگوں کی لہرو زندہ رہو پائیندہ رہو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :