کھا تمام

جمعہ 16 مارچ 2018

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

حیف ہے ان سب پر جو اِس فقیر کو پنڈی کا بھانڈ کہتے ہیں اور ان پر بھی جو بھاڑے کے ٹٹو کا لقب دیتے ہیں۔
زندگی مگر دوسروں کی خامیوں پر گذاری جاسکتی ہے۔ دہائی اور اسکا نصف گذرا ہوگا، ریفرنڈم کے ہنگام کپتان کو دِلّی والے رنگیلے کی شاگردی میں دِیا ۔ فقیر کی گورنری پیہم تھی، کپتان بھی جان لڑا کر لڑا اور ” یس یس“ ہاں ہاں کرکے دن رات ریفرنڈمی ڈبے بھرتا رہا، مگر دِّلی والا دغا باز نِکلا ، کپتان کو چند کلیوں پر ٹرخا گیا ، باقی سب تاریخ ہے۔

ایک وہ تھا توران کا بادشاہ ۔ درباری اور مصاحب جس کی گواہیاں دیتے تھے، بدخشاں کی دوشیزائیں جس کے نغمے گاتی تھیں، اندلس کی ماوٴں نے پھر ایسا حریت کیش جنا اور نہ جنیں گی، لیکن ابن خلدون کی ایک تنبیہ نے کایا پلٹ دی۔

(جاری ہے)


درویش کافی دیر سے مراقبہ میں تھا۔جاتے ہوئے سرما کی دھوپ ’ کت کتاریاں‘ کر رہی تھی ، تورا بورا میں سرسوں کے پھول کھِلنے کو بے قرار تھے۔

اچانک درویش نے مراقبے سے سر اُٹھایا اور گھمبیر لہجے میں کہا ’میری دائیں جیب میں سوا کروڑ اور بائیں جیب میں ایک کروڑ ووٹ پڑے ہیں‘ یہ کہتے ہی درویش دوبارہ مراقبے میں چلا گیا۔ کالے بالوں اور سفید داڑھی والا آدمی گواہ ہے میں نے کپتان سے کہا یہ سوا دو کروڑ ووٹ تمہاری جھولی میں ڈلوانا میری ذمہ داری بس ہوم ورک کر کے درویش کے پاس حاضر ہو جاوٴ ۔

ہوم ورک بھی کیا تھا کچی پینسل سے صرف ایک مضمون لکھنا تھا ’ مائی بیسٹ ٹرینڈ ‘ ۔ خوشامدیوں میں گھرا کپتان یہ بھی نہ کر سکا اور سوا دو کروڑ ووٹ، آہ۔
صبح کے تین بج چکے تھے ، کِسی بے صبر مرغے کی بانگیں سکوت چیر رہی تھیں، عصر غیر حاضر کے صلاح الدین ایوبی نے ایک حکمت بھرا کش لیا اور کہا ’ ایک ایکسٹینشن، بس ایک ایکسٹینشن اور مل جاتی تو شمال کے پہاڑوں پر مورچوں کے بجائے چار چار کنال کے گرمائی غریب خانے ہوتے ہمارے ‘۔

دیسی مرغی کا سوپ، مردان کا باداموں والا گُڑ ، دساور کا تمباکواور بس!
یہی ہے رختِ سفرمیر کارواں کے لئے ،
تف ہے الزام تراشوں پر ، اگر ایک بھی پلاٹ ثابت کردیں تو چھ چھ کے ان کے نام کردوں گا۔ ہے تو وہ بہت تیز بڑے بھائی کے تقابل، مگر نا کام ہے کار کردگی میں۔ دیسی مر غیوں کی یخنی پر ہی ٹرخاتا رہا ، قلم نہ گھما سکا ایک چھوٹی سی ہاوٴسنگ سوسائٹی کے لئے۔

آخری تجزیے میں کامیاب وہی رہتا ہے جو بر وقت دستخط کرنا جانتا ہو۔
کپتان اب تو سنتا ہی نہیں،سمجھایا تھا تنظیم پر توجہ دے مگر خدا سمجھے ان بھابھڑے بازاروں سے، عینوں سے اور غینوں سے، بھولے بھالے کپتان کو نکاحوں پر لگا دیا۔
نکاحوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
سمجھایا تھا ٹکٹ بانٹنے کا کام آپ کا یہ فقیر بلا معاوضہ کر دے گا، مگر کون روکے ان جہازوں کو ، مجاوروں کو،اور قبضہ گروپوں کو۔

تپسیا کی قدر چاہئیے ہوتی ہے، الیکشن کی ٹکٹیں بچوں کا کھیل نہیں حضورِ والا! اِس فقیر کی قدر کرتے تو دو ڈھائی سو سیٹیں لے مرتے۔ تحریک کے سگ بھونکتے بہت ہیں، کبھی کبھار مالکوں کے نمک خواروں پر بھی۔
پسر الرشید کو کالم لکھ کر دیا کہ طبیعت صاف کردے ان سارے کن ٹٹوں کی۔
برطانیہ، امریکہ ، عرب اور سب سے بڑھ کر ایک میڈیا گروپ اور بھاڑے کے ٹٹو ہیں اس حکومت کی پشت پر ورنہ میں اور کپتان چھ مہینے میں ہی چلتا کردیتے اس کو۔

عربوں کی قدیم کہاوت ہے ’ دیسی مرغی کو کبھی ہاوٴسنگ سوسائٹی کا نعم البدل نہ سمجھو‘۔ کمزور ہے انسان دیسی مرغیاں بھی کھائے جاتا ہے اور ہاوٴسنگ سوسائٹی کا غم بھی نہیں بھلاتا۔
وادی بولان میں کاوشیں رنگ لا رہی ہیں۔ہر طرف امن پھیلا ہوا ہے ، محبت کے زمزمے بہنے کو بیتاب ہیں، وہاں کی نئی حکومت حب الوطنی کی آنچ پر دہک رہی ہے ایسے میں اپنے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین ! آفرین ہے کپتان کی ضرب مومن پر۔


وہائٹ ہاوس کی وہ میٹنگ ۔ اگر جارج بش عقلمند ہوتا اور چارلس ڈیگال کا مشورہ مان لیتا تو دجلہ اور فرات کی وادیوں میں کتنا سکون ہوتا۔وہ انجینئر کہ بارود جس کے ہاتھوں میں گلبدن تھا اور سفید ریچھ کو جس نے آمو کے پار دھکیلا تھا ،آزردہ تھا، سلیمانی قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے اس مرد کوہستانی کو مشورہ دیا کہ چار چیزوں سے گریز کرو اور چار چیزوں کو اختیار کرو ، لیکن! یہ کہانی پھر سہی۔

رحیم یار خان کے ہومیو پیتھک ڈاکٹر رشتے میں خالو تھے، مگر کیا مہارت تھی ان کے ہاتھوں میں ۔ اپنے مطب میں صادق بازار سے خریدی ہوئی چھری اور چاقو سے دل کا بائی پاس ہو کہ جگر کی پیوند کاری یا گردے کی پتھری ، منٹوں میں مریض کا آپریشن کر دیا کرتے اور اصل پری کے دھاگے سے زخم کو ایسے سیتے کہ چند گھنٹوں میں مریض چنگا بھلا چھلانگیں مارتا دوڑ جاتا تھا۔
حیف ہے ان سب پر جو اِس فقیر کو پنڈی کا بھانڈ کہتے ہیں اور ان پر بھی جو بھاڑے کے ٹٹو کا لقب دیتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :