اداکارہ عظمیٰ خان پر تشدد‘ عوامی ردعمل تحمل کا متقاضی ہے

پیر 1 جون 2020

Shazia Anwar

شازیہ انوار

یہ کسی خوفناک خواب سے کم نہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی اچانک‘ اسلحہ سے لیس کئی افراد کے ہمراہ تنہا خواتین کے گھر میں داخل ہوجائے‘ وہاں توڑ پھوڑ کی جائے‘ انہیں زدوکوب کیا جائے اور فحش زبان استعمال کی جائے لیکن بدقسمتی سے یہ خواب نہیں بلکہ بدصورت حقیقت ہے جب آمنہ عثمان نامی خاتون اداکارہ عظمی خان کے گھر میں داخل ہوتی ہیں اور ایسے افعال کی مرتکب ہوتی ہیں۔

کیونکہ یہ ایک خوانگی مسئلہ تھا جس کے سیاق و سباق کے حوالے سے لوگوں کو کچھ نہیں معلوم تھا اس لئے اس ضمن میں کسی کے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا‘آخر کار آمنہ عثمان نامی خاتون کی جانب سے ایک ویڈیو ریلیز کی گئی جس میں انہوں نے اپنے جرم کی توجیہہ دینے کی انتہائی بھونڈی کوشش کی اور لوگو ں کو یہ سمجھانا چاہا کہ کوئی بھی عورت اپنی شادی شدہ زندگی کو بچانے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔

(جاری ہے)


سب سے پہلے تو آمنہ عثمان کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہئے کہ شادی شدہ زندگی قائم رکھنے یا اس کو بچانے کیلئے فریق مخالف کو قابو میں رکھنا‘ فریقین کا آپس میں مخلص ہونا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جن خواتین کے پاس آپ کا شوہر جارہا ہے وہ خواتین آپ کی مجرم نہیں بلکہ آپ کا حقیقی مجرم وہ شخص ہے جس کے نکاح میں آپ ہیں۔ اس سارے ڈرامے کے بعد آمنہ عثمان نے اپنی ویڈیو میں شوہر سے علیحدہ کا اعلان بھی کیا ہے تو میرا ماننا ہے کہ ایک ایسے شخص کو جسے رشتوں کا پاس نہیں کسی بھی قسم کا تماشہ کئے بغیر عزت سے چھوڑ دینا ہی بہتر تھا‘ آپ نے اپنی گندگی ساری دنیا میں اچھال دی اور لوگوں کو خود پر ہنسنے کا موقع فراہم کیا۔

یہ خبر اور ویڈیو کئی دن سے سوشل میڈیا پرٹرینڈ کرتی رہی۔ایسا محسوس ہوا کہ لوگوں کی ہمدردیاں عظمی خان کے ساتھ ہیں لیکن یہ عوام کا وڈیرہ شاہی اور طاقت کے اس نظام کے خلاف غصہ ہے جو امیر اور غریب کی تفریق روا رکھتے ہیں۔ یہی وہ وجہ ہے کہ جب عظمیٰ خان اپنی بہن کے ہمراہ ایف آئی آر کٹوانے کیلئے تھانے پہنچیں توکئی گھنٹوں تک ان کی ایف آئی آر مخالف پارٹی کی عدم موجودگی کو وجہ بناتے ہوئے درج نہیں کی گئی تاہم آخر کار اس واقعے کے خلاف لاہور کے علاقے ڈیفنس کے تھانہ ڈیفنس ایریا سی میں ایف آئی آر درج ہوگئی۔

یہ پہلا معاملہ نہیں ہے جب شوبزنس کے ستاروں کی نجی زندگی منظر عام پر آئی اور عوام کی جانب سے اس پر اپنی اپنی سمجھ کے مطابق قیاس آرائیاں کی گئیں۔ کرنے کی بات دراصل یہ ہے کہ کیا اداکاروں‘ ستاروں یا عوامی شخصیات کی نجی زندگی صرف کا ذاتی معاملہ ہے یا پھر یہ دیکھنے والوں کا بھی معاملہ ہے۔
 سب سے پہلے تو اس پر بات کرتے ہیں کہ آیا یہ ستارے یا مشہور شخصیات ہوتی کون ہیں یا ان کا تعارف کیا ہے۔

اسٹار تھیوری کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں جن کی شہرت ان کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے‘ ان کی عوامی مقبولیت ان کے فن کے ساتھ بڑھتی ہے اور اس مقبولیت کے گراف کو اوپر لانے میں پریس‘ سوشل میڈیا کی فین فاؤلنگ اور امیج کنسلنٹس اہم کردار ادا کرتے ہوئے ان کی شخصیت کا ایک ایسا تاثر سامنے لاتے ہیں جو ان کی اصل زندگی اور شخصیت پر حاوی آجاتا ہے۔
 آج کا دور سوشل میڈیا کا دور ہے‘ آپ اگر پبلک فیگر ہیں تو آپ کو چھینک مارتے ہوئے بھی دھیان رکھنا پڑے گا۔

آ ج کے ستاروں کو چھوٹے اور بڑے ہر طرح کے معاملے میں حساسیت اور تمیز کے ساتھ عمل کرنا پڑتا ہے کیوں کہ آج ہر چیز عوامی ہے۔ وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں وہ عوام کے سامنے ہے اور آپ عوام کو اس میں دخل اندازی کرنے سے روک نہیں سکتے اس لئے ہر معاملے میں انتہائی احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ منہ سے کوئی بات نکالتے ہوئے بھی سو بار سوچنے کی ضرورت ہے۔ 
اب آجائیں اس بات کی طرف کہ عوام کی کیا ذمہ داری ہے ُ؟ تو عوام کی سب سے پہلی ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ کسی بھی معاملے کے سامنے آتے ہیں بلاتکلف‘ بے سوچے سمجھے دھڑا دھڑ اپنی رائے کا اظہار نہ کریں بلکہ تھوڑا سا وقت لیں تاکہ پورا معاملہ سامنے آ جائے کیوں کہ ہر بات کے دو پہلو ضرور ہوتے ہیں۔

صرف اس وجہ سے رائے رکھنی ہے کہ آپ کے پاس ذریعہ اظہار ہے تو پھر تو ہر چیز پر رائے ہوسکتی ہے ایسے میں رائے اور ریا میں کوئی فرق نہیں پتا چل سکتا۔باالخصوص جب بات ذاتیات کی ہو تو خاص دھیان رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس میں بہت ضروری بات یہ ہے کہ اس مسئلے کو اپنے اوپر رکھ کر دیکھیں اور اپنے گریبان میں جھانکیں۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ہم اپنے لوگوں کو بہت صاف و شفاف سمجھتے ہیں اور سامنے والے کو گندا جب کہ مسائل کہاں اور کس خاندان میں نہیں ہوتے۔

کیا عام زندگی میں شادی شدہ افراد کے افیئرز نہیں ہوتے‘طلاقیں نہیں ہوا کرتیں یا پھر دوسری شادیوں کے واقعات سامنے نہیں آتے لیکن ایسا جب کسی ستارے کے حوالے سے سنا جاتا ہے تو ہر ایک اپنی رائے کا اظہارکرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ چلیں اظہار رائے کی آزادی ہے تو آپ بھی سمجھ داری کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کریں لیکن ایک ایسی وڈیو جس کا ہمیں کچھ نہیں پتا تو ہمیں حقائق کو ترجیح دینے کیلئے تھوڑا سا صبر کرنا ضروری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :