اس یوم آزادی جھنڈیوں کے بجائے درخت لگائیں

جمعہ 24 جولائی 2020

Shazia Anwar

شازیہ انوار

گئے زمانوں میں گرمی کا نام لیا جائے تو مئی ‘جون اور جولائی کے مہینے پردہ تصور پر گھوم جاتے تھے لیکن جیسے جیسے دنیا ماحولیاتی عمل سے گزر رہی ہے‘ ویسے ویسے موسمی حالات میں بھی تغیرآرہا ہے خصوصاً گزشتہ دو تین سالوں سے بڑھتی ہوئی گرمی نے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن کررکھا ہے ۔ہر گزرتے ہوئے سال کے ساتھ گرمی کے موسم کا دورانیہ اور گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ گرمی کے تسلسل میں آنے والے سالوں میں مزید اضافہ متوقع ہے ‘ اتنا ہی نہیں بلکہ اس کا دورانیہ بھی طویل ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مستقبل میں پاکستان سمیت دیگر ایشیائی ممالک میں سردی اور موسم بہار کے بالکل ہی ختم ہوجانے کا اندیشہ بھی ظاہر کیا جاتارہاہے۔

(جاری ہے)

ترقی کے اس دور میں فیکٹریوں‘ گاڑیوں‘بہت سی الیکٹرانک اشیاء سمیت گلوبل وارمنگ اور درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بننے والی جدید اشیاء کو تو ترک نہیں کیا جاسکتامگر ایسے حالات میں کچھ اقدامات کے ذریعے ہم بڑھتے ہوئے درجہ حرات کی شدت میں کمی ضرور لاسکتے ہیں اور گلوبل وارمنگ کے نقصانات کو کافی حد تک کم کرسکتے ہیں۔

درجہ حرارت اور گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کا سب سے آسان طریقہ بڑے پیمانے پر درخت لگانا ہے۔جنگلات لگانے کا عمل حرارت میں کمی اور ماحول کی صفائی میں مددگار ثابت ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں درخت لگانے کے حوالے سے خصوصی کام کئے جاتے رہے لیکن اس وقت صورتحال اس کے برعکس ہے نہ صرف درخت لگائے نہیں جارہے بلکہ درختوں کو بے دریغ کاٹا بھی جارہا ہے۔

درخت جس تیزی سے کاٹے جارہے ہیں اس کے نتیجے میں فضا میں آکسیجن کم اور کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ ہو رہی ہے جو جانداروں کیلئے شدید خطرات کا باعث ہے۔
پاکستان میں برسوں سے شجرکاری کی مہمیں چلائی جارہی ہیں۔ ہر سال سرکاری سطح پر اربوں روپے کے پودے لگائے جاتے ہیں لیکن پودے لگانے کے بعد اس کی حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوپاتے اور زیادہ تر پودے بڑے ہونے سے پہلے ہی مرجاتے ہیں اسلئے پودے لگانے کے ساتھ ان کی حفاظت کی بھی اشد ضرورت ہے ۔


 ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کے کل رقبے کا 25 فیصد حصے پر جنگلات کا ہونا بے حد ضروری ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں کل رقبے کے صرف 4 فیصد حصے پر ہی جنگلات ہیں جو انتہائی کم اور قابل تشویش ہے۔ ایک اندازے کے مطابق روس میں 48 فیصد‘ برازیل میں 58 فیصد‘ انڈونیشیا میں 47 فیصد‘ سوئیڈن میں 74 فیصد‘ اسپین میں 54 فیصد‘ جاپان میں 67 فیصد‘کینیڈا میں 31 فیصد‘ امریکا میں 30 فیصد‘بھارت میں 23 فیصد‘بھوٹان میں 72 فیصد اور نیپال میں 39 فیصد جنگلات پائے جاتے ہیں۔

اگرچہ ہم انفرادی طور پر اپنے ملک میں جنگلات میں اضافہ نہیں کرسکتے لیکن اپنے اپنے طور پر درختوں میں اضافہ تو کرسکتے ہیں۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر فرد اپنے حصے کی شمع روشن کرے‘ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ملک میں اتنے زیادہ درخت لگائیں کہ درختوں کے حوالے سے ہمارے ملک کی ضرورت پوری ہوجائے اور درخت لگانے سے ہم خود اور ہماری آئندہ نسلیں موسم کے مضر اثرات سے محفوظ رہ سکیں گے۔

پہلا قدم خود اٹھائیں اور اپنے گھروں‘ گلی اور محلوں میں درخت لگا کر اس نیک کام کا آغاز کریں۔ درخت زمین کے گرد موجود اوزون کی تہہ کے لیے انتہائی نقصان دہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے عنصر کاربن کو جذب کرتا ہے (جس سے گرمی کی شدت میں کمی ہوتی ہے) اور تازہ آکسیجن خارج کرتا ہے، جو زندگی کا انتہائی اہم عنصر ہے۔ گھروں اور چھوٹی عمارات کے آس پاس درخت لگانے سے کمرے ٹھنڈے رکھنے کے نظام مثلاً اے سی (ایئر کنڈیشن) کے اخراجات بھی کم کئے جاسکتے ہیں۔

درخت لگانے کا کام بہت مہنگا یا زیادہ وقت طلب نہیں ہے‘صرف چند بیجوں کو ایسی جگہ بوئیں جہاں ہوا‘ دھوپ اور مٹی موجود ہو اورآپ دن میں ایک بار پانی دے سکیں۔ پودا لگا دینا بہت بڑی بات ہے، مگر پودے کی باقاعدہ حفاظت اور آبیاری کرنا اس سے بھی بڑی ذمہ داری ہے‘ یاد رہے کہ پودے لگانے کے مقاصد تو اسی وقت حاصل ہوسکتے ہیں‘جب انہیں لگانے کے بعد اس وقت تک اس کی حفاظت کریں جب تک وہ بڑا نہیں ہوجاتا۔


ہم منتظر ہیں اگست کے مہینے کے جس میں ہم یوم آزادی کا جشن مناتے ہیں‘ اس موقع پر پورے ملک کو قومی پرچم سے سجادیا جاتا ہے ‘ جابجا جھنڈیاں لگادی جاتی ہیں اور یوں وطن سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ہم ہر سال ہی ایسا کرتے ہیں‘ اس سال کیوں نہ کچھ مختلف کیا جائے۔ اس سال ہم بجائے جھنڈیوں اور جھنڈیوں کے درخت لگائے جائیں ۔ ہر فرد صرف ایک درخت لگائے اور اس کے توانا ہونے تک اس کی دیکھ بھال بھی کرے ۔ آنے والے چند سالوں میں ہی ملک کا نقشہ بدل جائے گا ۔ یقین کریں ‘ وطن سے محبت کا اس سے بڑا کوئی اور ثبوت ہوہی نہیں سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :