محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم‎

بدھ 4 نومبر 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

لاکھوں کروڑوں درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر اور آپ کی آل پر کہ جن کے وسیلہ سے اللہ کا دین ہم تک پہنچا اور مکمل ہوا۔ خاکسار کی اتنی حیثیت کہاں کہ وہ اْس رب کعبہ کے محبوب کائناتؐ کی شان میں کچھ لکھ کر حق ادا کر سکے۔ وہ ہستی جس کے ذکر میں تو دنیا کے سارے درخت قلم اور سارے سمندر سیاہی بھی بن جائیں تب بھی اْس خالق و مالک اور اْس کے حبیب کی تعریف ممکن نہیں ہے۔


ربیع الاول کی یہ مبارک ساعت جس میں آپؐ کی آمد ہوئی۔ گویا یہ وہ مہینہ ہے جس کی برکت سے باقی مہینوں پر بھی رحمتیں نازل کی گئیں۔اْس رب کا شکر ہے کہ اْس نے ہمیں ایسا بابرکت مہینہ عطا کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سفیر خدا نبی آخرالزماں ؐ تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ آپ کی فکر انسانیت اپنی مثال آپ ہے،آپ کی حیات طیبہ کا ایک ایک پہلو ہمارے لئے راہنمائی و نجات اور بے حد تکریم و افتخار کا باعث ہے یعنی آپ کی ذات مقدس پوری نوع انسانیت کیلئے مکمل ضابطہ حیات ہے۔

(جاری ہے)

ایسی عظیم ہستی جو بنی نوع انسان کے لئے سراپا رحمت بنا کر بھیجے گئے یہاں تک کہ دشمنان اسلام بھی آپکے حسن اخلاق کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے اور قرآن کے مطابق کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی جان و مال اور پسندیدہ چیزوں پر فوقیت نہ دے۔

آپ نے جب پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تو سب سے پہلے ریاست کے گردو نواح میں موجود غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ امن معاہدہ کیا،انہیں پناہ عطا فرمائی، ان کی جان و مال،عزت وآبرو کی حفاظت ریاست کے ذمہ لی اور ان کی عبادت گاہوں کو امان بخشی۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے برطانیہ میں قانون کی تعلیم کا آغاز جس ادارے سے کیا اْس ادارے کو چننے کی سب سے بڑی وجہ لنکن ان پر آویزاں ایک لسٹ تھی جس میں دنیا کو بہترین قانون دینے والوں میں محمدؐ عربی کا نام سر فہرست تھا۔

اسی تناظر میں مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundred میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ ان سو آدمیوں کی فہرست میں اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب سے پہلے نمبر پہ رکھا۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پوری  نسل انسانی میں سیّدالبشر کہنے کے لائق ہیں۔

اس کے بعد تھامس کارلائیل نے 1840ء  کے مشہور دروس (لیکچرز) میں کہا کہ ”میں محمدؐ سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہ اخلاص پیش کرتے ہیں“۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے ”محمدؐ دراصل سروراعظم تھے۔15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاؤں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔

مٹی کے بت مٹی میں ملا دئیے۔
یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرتؐ کی تعلیم کا کہ جارج برناڈشا لکھتا ہے ”موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمدؐ اس دنیا کے رہنما بنیں“۔ گاندھی لکھتا ہے کہ ”بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا“۔

جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈراما نگار ”گوئٹے“ حضورؐ  کا مداح اور عاشق تھا۔ اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمدؐ  کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ”تاریخِ ترکی“ میں انسانی عظمت کے لیے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے ”اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لیے تین شرائط اہم ہیں جن میں مقصد کی بلندی، وسائل کی کمی، حیرت انگیر نتائج تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمدؐ سے ہم عصری کا دعویٰ کر سکتی ہے“۔

دی لمرتین لکھتا ہے ”فلسفی، مبلغ، پیغمبر، قانون سا ز، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا۔ بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا……وہ محمدؐ ہیں ……جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اْترنے والا محمدؐ سے بھی کوئی برتر ہو سکتا ہے“؟ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”محمدؐ  گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثل پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے“ لہٰذا آج کے فرانس کو اپنے فلسفی اور تاریخ دانوں سے سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔


بہرکیف ماہ مبارک کے توسط سے جہاں ہمیں اس بات کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اْس رب کعبہ نے ہمیں ملک پاکستان جیسی عظیم نعمت سے نوازا جو بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لئے اللہ تعالی کا خاص انعام ہے۔ وہاں ہم سب کیلئے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ اپنی نیتوں و عمل میں اخلاص پیدا کریں،اپنی زندگیوں کو اللہ اور اْس کے رسول کی اطاعت میں گزاریں کیونکہ بحیثیت مسلمان ہماری زندگی کا یہی مرکز و محور ہونا چاہیے اسی سے سوچ و فکر کو اپنی آنے والی نسلوں میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ناصرف اپنی زندگیوں میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظیم تعلیمات کو شامل کریں بلکہ آنے والی نسلوں تک اس پیغام کو منتقل کریں۔

اس کے علاوہ دنیا کے تمام مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ مغرب کو اسلامی روایات و اقدار سے درست معنوں میں روشناس کروایا جائے تاکہ اسلامو فوبیا کے خاتمے سے پوری دنیا امن و آتشی کا گہوارہ بن سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :