یہ وقت خاص ہے‎

منگل 29 دسمبر 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

کشمیر میں ایک کانفرنس جاری تھی، جس میں مختلف مکتبہ فکر اور مذاہب کے مقررین مدعو کئے گئے تھے، سب اپنی اپنی باری پر آئے تقریر کی اور اپنی نشست پر بیٹھ گئے، جب مسلمان مقرر کی باری آئی تو اس نے کہا کہ اسلام امن اور آتشی کا مذہب ہے، اسلام بھائی چارے اور اخوت کا مذہب ہے، اسلام مساوات اور انسان دوستی کا مذہب ہے اگر اسلام کو جاننا ہو تو قرآن اور حدیث پڑھو۔

جب وہ مسلمان مقرر تقریر ختم کر کے اپنی نشست پر تشریف آور ہوئے تو ان کے بعد ایک سکھ مقرر کی باری آئی جب وہ تقریر کے لیے سٹیج پر آیا تواْس نے کہا کہ میں اپنے ساتھی مقرر کی ہر بات سے متفق ہوں یعنی اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں وہ ساری خوبیاں موجود ہیں جن کا ذکر مجھ سے پہلے میرے مسلمان بھائی نے کیا مگر میں ان کی دوسری بات سے بڑی معذرت کے ساتھ اتفاق نہیں رکھتا کہ اگر اسلام کے بارے میں جاننا ہو تو قرآن اور حدیث کا مطالعہ کرو۔

(جاری ہے)

اْس نے کہا کہ میں اسلام کے بارے میں جاننے کے لئے مسلمان کے کردار اور عمل کا مطالعہ کیوں نہ کروں اور یہ کیوں نہ دیکھوں کہ مسلمانوں کی زندگی پر قرآن اور حدیث کا کیا اثر ہوا ہے، اس دین پر عمل کر کے مسلمانوں کے کردار اور عمل میں کیا تبدیلی آئی ہے، ان کے چھ فٹ کے وجود پر اسلام کا کیا رنگ چڑھا ہے۔ یہ سننا تھا کہ سارے جلسے پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا ہو، بلا کی خاموشی طاری تھی کسی کی جرات نہیں تھی کہ کوئی ایک لفظ بھی ادا کر سکے۔


در حقیقت یہ ایک زور دار طمانچہ تھا جو پوری اْمت مسلمہ کے منہ پر رسید کیا گیا کہ جس کی گونج مشرق سے مغرب تک سنائی دے رہی تھی اور اس کی تپش ہر مسلمان نے اپنی گال پر آج بھی محسوس کی ہوگی۔اب بھی وقت ہے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنی خامیوں لغزشوں اور کج ادا ئیوں کو تلاش کرنا ہو گا۔ میرے نزدیک ہماری زبوں حالی کی اصل وجہ ہماری نیت، اعمال اور ہمارے رویے ہیں ہم بحیثیت قوم اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔

اب جبکہ عید الاضحی کی آمد آمد ہے ہمیں اپنے انفرادی و اجتماعی رویوں کو تبدیل کر نا ہو گا۔اپنے معاملات کو اسلام کے زریں اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہو گا خاص طور پر اپنے کردار اور عمل کو تبدیل کرنا ہو گا۔یہ خاص وقت ہے۔ اس وقت ہمیں اپنی سوچ کو بد ل کر اپنے اردگرد رہنے والوں کا خیال رکھنا ہو گا، مجبور و بے سہارا خاندانوں، غرباء، مساکین، بیوہ اور یتیموں کا خیال رکھنا ہوگا اور اْن کا بھی جو کورونا کی وبا ء کے دوران مشکلات کا شکار ہوئے اور اپنے پیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اُن کو بھی مت بھولیں جنہوں نے اس وبا ء کے خلاف پہلی صفوں میں رہ کر جہاد کیا۔


ان معصوم اقلیتوں کا بھی احساس کیجیے گا جو آپ سے توقع تو رکھتے ہیں مگر ہاتھ نہیں پھیلاتے وہ خواہ کرسچن ہوں پارسی،سکھ ہوں یا ہندو وہ پاکستانی ہیں تو ان کا خیال رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ یاد رکھیے ہمارا تو پرچم بھی سفید رنگ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ پاکستان کی اقلیتیں پاکستان کی قوم کا اہم جْزو ہیں بالکل اسی طرح کہ جس طرح ہم بحیثیت مسلمان اہمیت رکھتے ہیں۔

یہ ہم سب کا وطن ہے جس کی خاطر ہمارے آباؤ اجداد نے بہت سی قربانیاں دیں تب کہیں جا کر اس گلشن میں بہار آئی، تب کہیں جا کر اس کے غنچیے میں پھول کھلے ہیں، تب کہیں جا کر اس مادر وطن کی مانگ میں جْگنوؤں کی طرح روشنی بھری۔بس احساس پیدا کیجیے کیونکہ ہم اْس دین کے پیرو کار ہیں جو جانور کو بھی پانی پلائے بغیر ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتا۔ ابھی چند روز قبل مندر کا شوروغوغا تھا اس مسئلے کو حل کرنے کے انداز اور طریقہ کار کو بہتر کیا جا سکتا تھا۔

اس بات کا خیال رکھ کر کہ کہیں ہماری وجہ سے کسی مذہب کے پیروکاروں کی دل آزاری تو نہیں ہو رہی، کہیں ہم اپنی زبان کی حد سے تجاوز تو نہیں کر رہے۔کیونکہ خدا کو حد سے تجاوز کرنا بھی سخت نا پسند ہے۔مگر ہم نے سوشل میڈیا سے شروع ہوکر پرنٹ میڈیا اور پھر پرنٹ میڈیا سے الیکٹرونک میڈیا تک،یعنی ہر جگہ اس پر اظہار رائے کیا خواہ کسی کو علم ہو یا نہ ہو سب نے اس مسئلہ میں اپنے دانت تیز کیے۔

پھر تحفظ بنیاد اسلام کا بل جس کو اگر اسلامی نظریاتی کونسل سے منظور کروا لیا جاتا تو حکومت کو اس قدر مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ کوئی مذہب ہو یا فرقہ ہمیں اپنے پاکستانی بھائیوں کے ساتھ ہر معاملہ احسن انداز اور باہمی مشورے سے حل کرنا چاہئے اور پاکستان کے آئین پر من و عن عمل کرنا چاہیے۔ان معاملات کوحل کرنے کا بہترین سے بہترین طریقہ اختیار کرنا چائیے تاکہ تمام مذاہب اور عقائد کے لوگ پاکستان میں عدل و انصاف اور مساوی حقوق کی گواہی دیں۔

فیصلہ جو بھی ہو انداز دل آزاری والا نہیں ہونا چاہئیے۔یہ وہ دن ہے جو ہمیں اللہ کی فرما ں برداری اور دوسروں کے لیے ایثار کا درس دیتا ہے۔ یہ وہ دن ہے کہ جو ہمیں رغبت دلاتا ہے کہ ہمیں اس موقعہ پر صرف جانور ہی قربان نہیں کرنا بلکہ اس عید پر اپنی ضد،انا،حسد اور بدگمانی کو بھی قربان کرنا ہے۔ ایک دوسرے کے لئے دل صاف کرنا ہے تاکہ نا صرف ہماری دی ہوئی قربانیاں اللہ کے حضور قبول و منظور ہو جائیں۔

بلکہ ہماری دنیا اور آخرت بھی سنور جائے۔
یہ عید گزشتہ عیدوں سے بہت مختلف ہے کیونکہ ہم اس وقت بھی کورونا وائرس کی خطرناک صورت حال سے دو چار ہیں، اس صورت حال میں ذرا سی بے احتیاطی بہت ہی گھمبیر ثابت ہو سکتی ہے اس لئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم سب مل کر احتیاطی تدابیر کا خیال رکھیں۔ خود کو اور اہل خانہ کو اس وباء سے محفوظ رکھیں۔ عید کو جتنا ہو سکے سادگی سے گزاریں کیونکہ عید تو سادگی سے بھی گزر جائے گی مگر گزرا ہوا وقت واپس نہیں آئے گا۔

ملک بھر میں تقریباً 500 سے زائد غیر قانونی مویشی منڈیوں کو بند کرکے حکومت نے احسن قدم اْٹھایا ہے تاکہ ایس او پیز کا نا صرف خیال رکھا جا سکے بلکہ صحت مند مویشی بھی عوام کو میسر آ سکیں ۔اس کا دوسرا پہلو سمارٹ لاک ڈاؤن پر عمل درآمد بھی ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس سے کاروبار متاثر ہو رہے ہیں مگر احتیاط کے بغیر کوئی چارہ نہیں کیونکہ پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں کورونا کی دوسری لہر آنے کا شدید خطرہ ہے۔

حکومت کے خلاف تاجروں کا احتجاج بھی جاری ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس وباء کے خلاف اگر حکومت احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد نہیں کروائے گی تو اور کون کروائے گا۔
علی بابا کے سی ای او نے بہت اچھی بات کی تھی کہ یہ سال زندہ رہنے کے لیے احتیاط کا سال ہے آپ اپنے کاروباری منصوبوں کو فی الحال موخر کر دیجیے اگر اللہ نے زندگی بخشی تو ان پر عمل درآمد بھی ہو جائے گا۔

بہرحال گفتگو کا آغاز کردار سازی سے ہوا تھا تو بس عید کے عظیم موقع پر ہمیں اپنی زندگیوں کو اللہ اور اْس کے رسولﷺ کے فرمان کے مطابق ڈھالنے کا عہد کرناہو گا۔ چوہدری خادم حسین صاحب جو ان دنوں علیل ہیں خدا اْن کو عمر خضر عطا فرمائے ان کے اکثر کالموں میں خدا خوفی اور اجتماعی توبہ کا بارہا ذکر کیا گیا مگر جب سے کورونا کی وباء شروع ہوئی ہے حکمرانوں سمیت کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، کسی نے کبھی آگے بڑھ کر بحیثیت قوم اجتماعی توبہ کی طرف توجہ دی ہوتی تو شاید ہم اس مشکل سے نکل آتے۔ مگر کیا کیجیے احتیاط اور دعا ہی واحد حل ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :