"احترامِ محرم اور ہمارا فریضہ"

جمعہ 28 اگست 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

اسلامی کیلنڈر میں بہت سے تہوار ایسے ہیں جو ہم عقیدت و احترام کے ساتھ مناتے ہیں ۔چاہے ہمارا تعلق کسی بھی گروہ یا مسلک سے ہو اِن ایام کی مکمل پاسداری کرنا بحثیت مسلمان ہم پر فرض ہے ۔چاہے وہ عیدین کے تہوار ہوں یا رمضان المبارک کا مہینہ ہو یا پھر محرم الحرام کے ایام ہوں. ہمارے اسلامی معاشرے میں اِن تہواروں کو بڑے عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اِن ایام پر بھی مسائل کھڑے کرتے ہیں اور فرقہ واریت کو پروان چڑھاتے ہیں۔

محرم الحرام کے دسویں دن کو یومِ عاشورہ کہا جاتا ہے اسلام میں اِس دن کو بہت فضیلت حاصل ہے اسلامی تاریخ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جب رمضان المبارک کے روزے رکھنا بھی فرض نہیں ہوا تھا تب یومِ عاشورہ کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض تھا لیکن جب رمضان المبارک کے روزے فرض کیے گئے اُس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس دن کا روزہ رکھنا سنت مستحب قرار دیا۔

(جاری ہے)

ایک حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ جو شخص یومِ عاشورہ پر روزہ رکھے گا اُس کے ایک سال کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے یعنی کہ اسلامی تاریخ میں اِس دن کی بہت فضیلت ہے یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بہت سے لوگوں کے مطابق یومِ عاشورہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے اِس لیے اِسلامی لحاظ سے اِس دن کی بڑی فضیلت ہے لیکن اِس دن کی فضیلت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور سے ہی تھی یعنی کہ یومِ عاشورہ پر روزے رکھنے کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنتِ مستحب قرار دیا جبکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت آپ صلی الله عليه وآلہ وسلم کے وصال کے ساٹھ سال بعد ہوئی تھی اِس لیے اِس دن کی عقیدت و احترام بحثیت مسلمان ہم سب پر فرض ہے لیکن بدقسمتی سے ہم میں سے ہی بہت سے لوگ اِس دن کی فضیلت سے ناآشنا ہیں اور معاملات کو فرقہ واریت کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔

پاکستان میں پچھلے کئی سالوں سے محرم الحرام کے ایام میں قانون نافذ کرنے کے لئے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں ۔ہر سال یومِ عاشورہ کو موبائل فون سروس بھی بند کر دی جاتی ہے، ڈبل سواری پر بھی پابندی عائد کر دی جاتی ہے حالانکہ ایسا بلکل بھی نہیں ہونا چاہئے تھا کیونکہ واقعہ کربلا کسی ایک گروہ یا مسلک کا غم نہیں تھا بلکہ پوری امتِ مسلمہ کا غم تھا جسے ہم میں سے بہت سے لوگوں نے ایک مسلک یا فرقے کا ہی مسئلہ بنا دیا۔

اِس سے ہٹ کر بھی یہ دن اسلامی لحاظ سے بہت مقدس ہےجس سے کوئی مسلمان انکار نہیں کر سکتا لیکن بدقسمتی سے ہمارا یہ المیہ ہے کہ مقدس ایام پر ہم فرقہ واریت کا پرچم تھام لیتے ہیں اور ایسا ہر سال ہوتا ہے کہ جب ہم ایک دوسرے کے مسالک کے ساتھ خوب چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں اِس میں سب سے زیادہ منفی کردار ہمارے علماء کرام کا ہی ہوتا ہے جو ممبر پر بیٹھ کر لوگوں کے جذبات کو ہوا دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے مسالک کے خلاف ہی بات کرتے ہیں حالانکہ اِن ایام پر ہمارے علماء کرام کو پیار و محبت اور واقعہ کربلا کو تفصیلاً لوگوں کے سامنے خاص طور پر نوجوان نسل کے سامنے پیش کرنا چاہئے اور یومِ عاشورہ کی فضیلت و حرمت  کا اپنے خطبات میں ذکر کرتے رہنا چاہئے تاکہ لوگ اصل حقائق کو جان کر فرقہ پرستی سے باہر نکلیں لیکن کم علمی کی وجہ سے بہت سے لوگ اِن کی ایسی باتوں میں آتے ہیں جس سے فرقہ پرستی پھیلتی ہے ۔

اِس ساری صورتحال کو کچھ لوگ اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لئے تول دیتے ہیں اور معصوم لوگوں کے جزبات کے ساتھ کھیلتے ہیں ۔حالانکہ کوئی شیعہ ہو یا چاہے سنی جو اہل علم بھی ہو اور مقدس ہستیوں کے احترام سے واقف بھی ہو وہ کبھی بھی اہلِ بیت علیہ السّلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنہا یا پیغمبر اسلام کے بارے توہین آمیز القابات یا اُن کی شان میں گستاخی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔

لیکن ہمارے ہاں کچھ لوگ جن کا تعلق کسی بھی فرقے یا مسلک سے نہیں ہوتا ایسے لوگ صرف اُس مسلک یا کسی بھی فرقے کا لبادہ اوڑھ کر دوسرے فرقے کے لوگوں کے جذبات مجروح کرتے ہیں اور اِس عمل سے اپنے ذاتی مفادات کو حاصل کرتے ہیں ۔اِیسے لوگوں کا کام اِن ایام پر خوف و ہراس ہی پھیلانا ہوتا ہے اور بدقسمتی سے ہم ایسے گھٹیا اور بدبخت لوگوں کو کسی مسلک کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں اور اُس فرقے یا مسلک کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیتے ہیں اور جو لوگ چاہتے ہیں کہ اِن ایام پر امن وامان کے حالات بگڑیں اُن کی خواہشات کی تکمیل ہم خود کرتے ہیں ۔

ایسے لوگ اسلام سے خارج ہیں جو مقدس ہستیوں کی توہین کے مرتکب ٹھہرے ہوں ۔ایسے لوگوں کے لئے دنیا اور آخرت میں زلت و رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
اِس لیے ہمیں محرم کے ایام خاص طور پر یومِ عاشورہ پر پیار و محبت، امن و سکون کا دامن ہرگز نہیں چھوڑنا چاہئے اور اِن ایام میں بھی ایسے ہی مل جل کر رہنا چاہئے جیسے سال کے باقی ایام میں رہتے ہیں ۔

۔کیونکہ واقعہ کربلا کسی ایک مسلک کے لئے قابلِ افسوس نہیں بلکہ ہم سب کے لئے درد بھری داستان ہے کہ کس طرح ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے امام حسین علیہ السلام کا اسلام کی سربلندی کے لیے جامِ شہادت نوش کرنا یقیناً ایک بہت بڑی قربانی تھی ۔ہم قربانی اور شجاعت کی اِن داستانوں سے سیکھ کر ایک سچے مسلمان بن سکتے ہیں۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :