"ہم کتنا بدل گئے"

منگل 19 جنوری 2021

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

تاریخ اور ہمارا کلچر ہی ہماری بڑی پہچان ہوتی ہے لیکن جب یہی دونوں چیزیں ہی زنگ آلود ہو جائیں تو معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے، ایک وقت ایسا تھا جب محبت، عقیدت اور بھائی چارہ ہمارے کلچر کی پہچان ہوا کرتی تھی اور مسلمانوں کی تاریخ میں یہی روایت رہی ہے کہ ہم اپنے اسلامی اقدار کو ہمیشہ فروغ دیتے رہے لیکن اب زمانے کی تندوتیز ہواؤں نے اِن روایات کو یکسر بدل ڈالا، اب اُسی معاشرے نے منافقت، جھوٹ، بے ایمانی، لالچ اور نفرت کے لبادوں کو اوڑھ لیا ہے، ایسا ہرگز بھی نہیں کہ یہ سب پہلے نہیں تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اِن حقائق میں شدت آ چکی ہے اور ہمارے معاشرے میں یہ سب عام ہو چکا ہے، آج ہم اُس معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں نفسا نفسی کا عالم ہے، ہر کوئی دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کے لئے بھاگ رہا ہے، ایک طرح سے دوڑ لگی ہوئی ہے جو اِس دوڑ میں کامیاب ہوا وہی سکندر ٹھہرا اور باقی ہارنے والے ناجانے کن مصائب سے دوچار ہوتے ہیں، حکمران سے لے کر عوام تک اور مہمان سے لے کر میزبان تک سبھی نے جدیدیت کی چادر اوڑھ لی ہے، پاکستان کے ہر صوبے میں رہنے والی اقوام کا کلچر ایک دوسرے سے مختلف ہے، پنجاب کے رہنے والے باسی اپنا ایک مخصوص کلچر رکھتے ہیں اور پختونخواہ کے بھائی کلچر میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں لیکن بہت سی اقدار جو صدیوں سانجھی بھی رہیں وہ اب ماند پڑ چکی ہیں، پنجاب کے علاقوں بلخصوص دیہاتوں میں یہ رواج عام تھا کہ رات کے آخری پہر تک محفلیں سجتیں، آگ کے الاؤ کے آس پاس بیٹھ کر زمانے کی کھٹی میٹھی باتیں کرنا معمول تھا، بزرگ اِس بیٹھک کی رونق ہوا کرتے تھے جو نوجوان نسل کو اپنے طور طریقوں سے روشناس کرواتے، مہمان نوازی کا انداز بہت سہانا تھا جب بھی کسی کے گھر مہمان آتا تو وہ اُن کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑتے، پنجاب کے دیہی علاقوں میں سرسوں کے ساگ اور مکئی کی روٹی سے مہمان نوازی کی جاتی، شہروں میں بھی دیسی ساختہ رواج عام تھا اور یہی رواج اپنے اپنے طور طریقوں کے مطابق پاکستان کے ہر علاقے میں موجود تھا، دوستی میں شفافیت تھی، خلوص اور محبت عام تھی، دوست ایک دوسرے پر فخر کرتے اور زمانے کے دکھ سکھ سانجھے ہوا کرتے تھے، جب کسی دوست کو دُکھ کا سامنا ہوتا تو باقیوں کو بھی وہی احساس ہوتا جو اُن کے دوست کے ساتھ ہو رہا ہوتا اور ایسا ہی خوشیوں کے مواقع پر ہوتا یہ روایات اب محدود ہو چکی ہیں اب دوستوں میں زیادہ تر مفاد اور بدنیتی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے آج کے دور میں اگر کوئی مخلص نظر بھی آ جائے تو اُسے بیوقوف تصور کیا جاتا ہے،  یعنی کہ زمانے کی جدیدیت نے اِس خوبصورتی کو مانند کر دیا جو ماضی میں ہوا کرتی تھی، خوراک اور رہن سہن میں بھی نمایاں تبدیلیاں آ چکی ہیں، پہلے لوگ کچے مکانات میں رہا کرتے تھے لیکن اُن کی شخصیت اور دل پکے ہوتے تھے لیکن آج مکان تو پکے ہیں لیکن لوگ کچے ہو چکے ہیں، وہ انسانیت ختم ہو چکی ہے جو ماضی میں ہوا کرتی تھی ۔

(جاری ہے)

پاکستان کے قیام کے وقت لاکھوں مہاجرین نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی، جس طرح سے یہاں کے مقامی لوگوں نے اپنے مسلمان مہمانوں کی خدمت کی اِس کی مثال نہیں ملتی، یہ زیادہ دور کی بات نہیں لیکن آج ستر سال بعد وہی ملک لیکن ہم میں سے بہت سے خود تک ہی محدود ہو چکے ہیں ہمیں اپنے ہمسایے تک کا خیال نہیں رہا کہ وہ کس حال میں جی رہا ہے، آج ہمارے دیہات بھی جدیدیت کے جادو میں بندھے جا چکے ہیں ۔

خوراک سے لے کر رسم و رواج تک سبھی روایات بدل چکی ہیں، آج ہر شخص کے پاس موبائل ہے اور ہم میں سے خاص طور پر نوجوان موبائلوں کے سحر میں مبتلا ہیں ۔آج دوستی کا پیمانہ موبائل فون ہی رہ گیا ہے، اگر کوئی دوست یا مہمان آپ کے گھر آئے تو بجائے آپ اُس سے گفت و شنید کریں، آپ اُس کی موجودگی میں موبائل پر اُس شخص سے بات چیت کرتے رہیں گے جو آپ سے کوسوں دور ہے، اور آپ کی طرف آیا ہوا مہمان منہ نیچے کر کے واپس چلا جائے گا، یقیناً ہم بہت بدل گئے، اِس بدلاؤ کا ہمیں شاید اُتنا اندازہ نہیں ہو پا رہا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہماری شخصیت اور پیار و خلوص مانند پڑ رہا ہے جس کا نتیجہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھتے رہتے ہیں کہ کس طرح ہر کہیں نفسا نفسی کا عالم ہے، نہ وہ زمانہ خوبصورت رہا اور نہ ہی زمانے کا وہ کلچر یا تاریخ کی روانی رہی، یقیناً آج بھی ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اپنی خوبصورت روایات کو نہیں بدلا بلکہ آج بھی اُن پر قائم ہیں لیکن ایسے لوگوں کی قدروقیمت اِس جدید معاشرے میں گھٹ چکی ہے۔

کیونکہ وہی شخص یا معاشرہ بہتر کہلاتا ہے جس نے جدید دور کو اپنایا ہے۔ اِس ساری صورتحال کے ہم خود ذمہ دار ہیں کہ کس طرح ہم نے اپنی روایات کا قتلِ عام کیا ،ہم نے تو کسی حد تک اپنی اصل شناخت کو برقرار رکھا ہوا ہے اور بہت سے لوگ اِس سے واقفیت بھی رکھتے ہیں لیکن ہماری آئیندہ آنے والی نسلیں یہ سب کتابوں میں ہی پڑھ سکیں گی کہ اُن کا ماضی کیسا رہا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :