ڈیرہ غازی خان کے حالات نہ بدل سکے۔۔۔۔!

منگل 15 فروری 2022

Shujat Khan Ahmadani

شجاعت خان احمدانی

ڈیرہ غازی خان ڈویژن کی سیاست ملکی و صوبائی لیول پر بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔جس طرح پورے پاکستان کی سیاست صوبہ پنجاب کے گرد گھومتی ہے اس طرح ڈیرہ غازی خان کی سیاست صوبہ پنجاب پر بہت گہرا اثر رکھتی ہے۔صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ میں بھی ڈیرہ غازی خان کی سیاست کا اہم کردار ہوتا ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک ڈیرہ غازی خان ڈویژن جو ضلع راجن پور٫ضلع لیہ اور ضلع مظفر گڑھ پر مشتمل ہے کے سیاسی خاندان صدر ٫وزیراعظم٫ وزیراعلی ٫گورنر٫سنیٹرز٫ صوبائی اور وفاقی وزراء جیسے کئی اہم عہدوں تک فائز ہوتے رہے لیکن بدقسمتی سے علاقے کی تقدیر نہ بدل سکے۔

وہ یہاں کے عوام کی محرومیوں کے ازالہ کےلیے کوئی مؤثر اقدامات نہ اٹھا سکے۔وہ خود تو مالی اور سیاسی طور پر مستحکم ہوتے رہے لیکن عام آدمی تک پنیادی ضروریات بھی نہ پہنچا سکے جو بہت بڑا المیہ ہے۔

(جاری ہے)


آج کے جدید ترین دور میں بھی ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں صرف ایک یونیورسٹی ہے بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی اس ڈویژن میں کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں پڑھنے کےلیے سکول تک نہیں ہیں ٫پینے کےلے پانی نہیں ہے انسان اور جانور ایک گھاٹ سے پینے پیتے ہیں۔

حیرت ہوتی ہے ایک سابق صدر کا پوتا اور سابق وفاقی وزیر پانی و بجلی کا بیٹا جس کا خاندان پاکستان بننے سے بھی پہلے سیاست کرتا آ رہا ہے وہ علاقے میں لوگوں سے کہہ رہا ہوتا ہے میرے دادا اور بابا اس علاقے کےلیے کچھ نہیں کر سکے میں اب یہاں سے منتخب ہو کر علاقے کو ترقی یافتہ بناؤں گا۔
20 اگست 2018 کا دن ڈیرہ غازی خان کےلیے خوش قسمت ترین دن تھا جب وزیر اعلیٰ پنجاب کا سہرہ ڈیرہ غازی خان کے پسماندہ علاقے بارتھی سے تعلق رکھنے والے سردار عثمان بزدار کو نصیب ہوا۔

لوگوں کا خیال تھا کہ وسیب کا بندہ وزیراعلی بن رہا ہے  اب ہمارے حالات بدل جائیں گے۔ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو گا۔حقیقی تبدیلی عام آدمی تک پہنچے گی۔غریب اور عام آدمی کے حالات تو نہ بدل سے البتہ بزدار خاندان کے حالات ضرور بدل گئے۔ہم نے دیکھا ہے پاکستان میں جب ایک سفید پوش طبقے پر سیاست کی دیوی مہربان ہو جاتی ہے تو راتوں رات دولت کی دیوی اس کی چوکھٹ کو چوم لیتی ہے۔


آج سردار عثمان بزدار کو وزیراعلی پنجاب کا عہدہ سنبھالے کوئی چار سال کا عرصہ ہونے کو ہے سوائے زبانی جمع خرچ اور کاغذی دعوؤں کے ڈیرہ غازی خان کے عوام کےلیے صیح معنوں میں کچھ نہیں کر سکے جس کا فائدہ عام آدمی کو پہنچا ہو۔حال ہی میں چند دن قبل وزیر اعلیٰ پنجاب کے شہر اور سی ایم ہاؤس ڈیرہ غازی خان سے چند کلومیٹر دور گورنمنٹ سکول میں خونخوار کتوں نے حملہ کر کے طالب علم کو شدید زخمی کر دیا اسے بچانے کےلیے کوئی بھی اداراہ وقت پر نہ جاگ سکا۔

نہ سکول انتظامیہ اسے بچانے کےلیے آئئ٫ نہ ایمبولینس وقت پر پہنچی نہ ہی ہسپتال میں ویکسین دستیاب تھی۔آخر کار بچے کی موت واقع ہو گئی۔
بچے کی جان جان چلے جانے کے بعد وزیر اعلیٰ نے ایکشن لیا اور بچے کے والد کو اٹھ لاکھ روپے کا امدادی چیک دینے کےلیے مشیر وزیر اعلی حنیف پتافی اور ایم پی اے سردار احمد علی دریشک کا ایک وفد بھیجا۔انہوں نے وہاں جا کر مرحوم بچے کے والد کے دکھ میں شریک ہونے اور اظہار ہمدردی کرنے کی بجائے کی بجائے فوٹو سیشن کو ترجیح دی تاکہ ویڈیوز اور فوٹوز کو سوشل میڈیا پر شئیر کر کے سیاست میں خدمت کی خوب ایڈورٹائزمنٹ کی جائے۔

جس پر مرحوم بچے کے والد برہم ہو گئے اور انہوں نے چیک لینے سے انکار کر دیا۔
آخر کی کیا لکھوں اور کیسے لکھوں٫ گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ڈیرہ غازی خان جس میں غریب طلباء عرصہ دراز بیس سالوں سے مختلف ٹیکنیکل پروگرامز میں  تعلیم حاصل کرتے آ رہے تھے۔ اس کو ختم کر کے میر چاکر خان رند یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں ضم کر دیا گیا۔حالانکہ وزیر اعلیٰ صاحب نے کہا تھا نئی آرٹ اف دی ماڈرن انجیرنگ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا پھر کالج کو ختم کرنے کا فیصلہ سمجھ میں نہیں آتا۔

اب غریب طلباء دور دراز علاقوں میں دھکے کھاتے پھریں گے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یونیورسٹی کی کلاسز کے ساتھ ڈپلومے کی کلاسز کو بھی جاری رکھا جاتا یا ڈیرہ غازی خان میں کسی اور جگہ کالج کو شفٹ کر دیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔کالج کو مکمل طور پر ختم کر کے ملازمین کو ہیڈ آفس ٹیوٹا لاہور رپورٹ کرنے کا کہا گیا تاکہ انہیں کسی دوسری جگہ تعینات کیا جائے۔

لیکن آج دو مہینے ہو گئے ہیں۔ان ملازمین کو کسی دوسری جگہ تعینات نہیں کیا جا سکا۔ تعیناتی نہ ہونے کی وجہ سے انھیں تنخواہیں نہیں مل رہیں۔جس کی وجہ سے ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔
ویسے تو پورے پاکستان میں کرپشن اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن جتنی کرپشن ڈیرہ غازی خان میں ہو رہی ہے خدا کی پناہ کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے جس میں کرپشن عروج پر نہ ہو کرپشن کے درجنوں کیسز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکے ہیں لیکن کسی ایک کو بھی ادارے اور انتظامیہ نے نہیں پکڑا پوری ڈویژن میں چور اور ڈکیٹ گینگز نے لوگوں کا جینا محال کیا ہوا ہے۔

پہلے جہاں رات کی تاریکی میں ڈکیتی کی وارادتیں ہوا کرتی تھی اب وہاں دن کے وقت وارداتیں ہو رہی ہیں۔لوگ دن کے وقت بھی سفر کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچتے ہیں۔
اقتدار کی کرسی ہمیشہ کےلیے کسی کے پاس نہیں رہتی٫لوگ اور وقت ہمیشہ ان لوگوں کو یاد رکھتا ہے جو اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ملک اور اپنی قوم کی ترقی کےلیے اچھے کام کرتے ہیں۔دوسری طرف وہ لوگ ہمیشہ کےلیے تاریخ کا سیاہ باب بن جاتے ہیں جو اقتدار کو اپنی ذات کےلیے استعمال کرتے ہیں۔اپنے خاندان کو ترقی دینے کےلیے استعمال کرتے ہیں۔اپنے ملک و قوم اور وسیب کے بارے کچھ بھی نہیں سوچتے۔وزیراعلی صاحب اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کو تاریخ کس حوالے سے یاد کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :