
مسجد ڈھا دے، مندر ڈھا دے ، دل کسے دا ناں ڈھائیں بندیا
ہفتہ 4 جولائی 2020

سید عباس انور
(جاری ہے)
اور عمران خان کو اسلام دشمن قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس پر فتویٰ لگنا چاہئے، اس کی حکومت کو ختم کرنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔
اس معاملہ پر بہت سے ذی شعور پاکستانی بھی اپنے اپنے انداز میں تبصرہ کر رہے ہیں کیونکہ گورودواہ بن جائے، گرجا بن جائے یا مندر بن جائے تو ہمارے اسلام کو فوراً خطرہ محسوس ہو نا شروع ہو جاتا ہے۔ اور اب اسلام آباد میں ہندوؤں کیلئے مندر کی تعمیر پر مسلمانوں کو اپنا اسلام اور ایمان خطرہ میں محسوس ہو رہا ہے،اورحسب سابق پورے ملک کے جاہل مولوی اپنی اپنی فیکٹریاں جواچھے بھلے مسلمانوں کو کافر قرار دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں، بند پڑی گل سڑ رہی ہوتی ہیں،ان کو دوبارہ اپنے پورے زور وشور سے دوبارہ کام میں لاتے ہوئے مسلمانوں کو کافر اور کافروں کو غدار وں سے بھی کچھ آگے کے لقب سے نوازنا شروع کر دیتے ہیں۔ عجیب صورتحال ہے کہ کیا ہمارا ایمان اتنا ہی کمزور ہے کہ ایک مندر تعمیر ہونے سے ہمارے اسلام کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ لیکن دودھ میں پانی یا کیمیکل ملانے اور کم تولنے سے کسی کے ایمان کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا؟ سود کا پیسہ کھاتے ہوئے کسی مسلمان کے ایمان کو کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا؟ اوپر سے نیچے تک دھوکہ دہی اور جھوٹ کو اپنی زندگیوں میں شامل کرتے ہوئے کسی کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اسلام کو خطرہ ہے؟ خود اسلام کے ٹھیکیدار جاہل مولوی حضرات جو ایک وقت پر اذان کے مخالف، ایک دوسرے کے فرقے کے پیچھے نمازو دعا تک ادا نہ کرنے اور منبر پر بیٹھ کر تفرقہ پھیلانے سے کسی کے ایمان کو کوئی فرق نہیں پڑتا؟ اور ناجانے کتنے ہی بیشمار ایسے کام ہیں جو بحیثیت مسلمان کسی کو بھی نہیں کرنے چاہئے لیکن ہمارے پیارے پاکستان میں وہ سب کچھ ہو رہا ہے جس کے بارے میں قرآن و حدیث میں سختی سے منع فرمایا گیاہے۔اسلام آباد مندر کے حوالے سے اس کی اصل حقیقت پر مزید روشنی ڈالنے کیلئے کچھ واضح کرنا میں بہت ضروری سمجھتا ہوں۔ 2015ء میں نواز شریف حکومت کو ہیومن رائٹس کمیشن نے ایک خط لکھا جس میں مطالبہ کیا گیاکہ اسلام آباد میں بسنے والے ہندوؤں کیلئے مندر کی تعمیر کیلئے کوئی جگہ الاٹ کی جائے جس میں وہاں موجود ہندو اپنی مذہبی عبادات اور رسومات کو ادا کر سکیں، اسلام آباد میں موجوداسلام آباد ہندو پنچائیت کونسل اورہیومن رائٹس کمیشن کے مطالبہ پر نوازشریف حکومت نے اسلام آباد کے علاقےH9/2 چار کنال کا پلاٹ برائے ہندو مندر، شمشان گھاٹ اور ایک ہندو کمیونٹی سنٹر کیلئے الاٹ کیا گیا ، اور کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد جیسے مہنگے شہر میں اس پلاٹ کی مالیت کروڑوں میں ہے، جس کے متعلق 31 مئی 2016ء کو آرڈر جاری کئے گئے ، یعنی2016ء میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آنے والے الیکشن کے نتیجہ میں عمران خان ملک کے وزیراعظم ہونگے۔اور موجودہ حالات میں ملک کی سیاسی پارٹیاں سیاسی پوانٹ سکورننگ کیلئے اسے عمران خان سے جوڑتے ہوئے اس کا سارے کا سارا ملبہ تحریک انصاف حکومت پر ڈال رہی ہیں۔2016ء کے مندر بنائے جانے کے فیصلے کے بعد سے اب تک وہ پلاٹ تو الاٹ کر دیا گیا لیکن اس کی تعمیر کیلئے اب اسلام آباد ہندو پنچائیت کونسل حکومت وقت سے 10 کروڑ فنڈز فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے جس پر موجودہ حکومت غور کر رہی ہے، لیکن اس کی تعمیر کیلئے فنڈز جاری کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ لیکن اس پلاٹ کی تعمیر کیلئے اسلام آباد میں موجود ساڑھے تین سو ہندو کمیونٹی نے اپنی مدد آپ کے تحت فنڈز اکٹھے کر کے اس پلاٹ کی چار دیواری کروانی شروع کر دی ہے، اسلام آباد میں اس وقت ساڑھے تین سو ہندو خاندان آباد ہیں جبکہ مجموعی طور پرہندو آبادی کا تناسب تین ہزار کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے۔ سی ڈی اے کے شعبہ بلڈنگ کنٹرول نے اس مندر کا نقشہ بھی پاس کر دیا ہے،جس کے تحت اس پلاٹ کی چار دیواری کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والے اس بات سے کبھی انکار نہیں کر سکتے کہ اسلامی ریاست میں بھی اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں، فتاویٰ عالمگیری کی کتابوں میں موجود اسلامی مسائل پر اقلیتوں سے متعلق سوالات کے جواب میں اسی بات پر زور دیا گیا ہے کہ اقلیتوں کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق عبادات کرنے کی کھلی آزادی ہے۔کیونکہ اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اسلامی ریاست میں موجود اقلیتوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو کسی بھی مسلمان کو ، کیونکہ اس کا حکم ہمیں قرآن اور حدیث میں حضوراکرم ﷺ، ان کے صحابہ اور خلفائے راشدین کی بے شمار مثالوں سے ملتا ہے، جس سے کوئی بھی مسلمان انکاری نہیں۔ فتاویٰ عالمگیری کی جلدوں میں موجود اسلامی فتوؤں اور مسائل پر موجود ہر مسئلے کے حل کو ملک کے بیشتر علمائے کرام اور عالم دین بھی مستند مانتے ہیں۔جیسے کسی بیماری پر بات کرنے کا حق ایک ڈاکٹر اور اس بیماری کے ماہر معالج کا کام ہے اسی طرح ایک مذہبی مسائل پر بات کرنے حق صرف اور صرف کسی جید عالم دین کا ہی کام ہے ،ایسے اسلامی مسائل پر بات کرنا ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس مسئلے پر بات کر سکے۔ اس لئے اس مسئلے کے سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے ہمارے ملک کے لاعلم سیاستدانوں کا یہ پروپیگنڈا کہ اس مندر کی تعمیر میں عمران خان حکومت کا ہاتھ ہے ، بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ دینی کتابوں میں واضح الفاظ میں درج ہے کہ سود کھانا اللہ کے خلاف کھلی جنگ ہے، لیکن پورا ملک ہی سود پر چل رہا ہے اور اس پر تو کبھی کسی سیاست دان کو خیال نہیں آیا کہ اس پر بیان بازی کی جائے۔ جھوٹ بولنا بھی گناہوں میں شمار ہوتا ہے، جو کہ اسمبلیوں سے لیکر گلی محلوں کی سطح تک ثواب سمجھ کر بولا جاتا ہے، اس پر کسی سیاست دان نے کبھی آواز نہیں اٹھائی۔یاد رکھیں اسلام نے جتنے حقوق اقلیتوں کو دیئے ہوئے ہیں ، اس کی مثال کسی بھی دوسرے مذاہب میں نہیں ملتی۔ ہمارے ہمسائیہ ملک بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے پوری دنیاواقف ہے، مساجد کو گرایا جا رہا ہے، مسلمانوں کو اپنے مذہبی تہوار منانے کی آزادی نہیں، ابھی چند ہفتوں بعد عیدالضحیٰ کے موقع پرگائے کی قربانی کے بعد مسلمانوں کا قتل عام ہر سال کا معمول بن گیا ہے۔ ابھی چند ماہ قبل امریکہ میں ہونیوالا سیاہ فام کا پولیس کے ہاتھوں قتل اور اس کے نتیجہ میں پورے یو ایس اے میں ہونیوالے ہنگاموں کو سیاہ فام اقلیت پر ظلم قرار دیا جا چکا ہے۔ اسرائیل نے مسلمانوں پر جس طرح کے ظلم ڈھائے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ، کو پوری دنیا میں کون نہیں جانتا؟ برما ) میانمر( میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے، وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ لہٰذا ان سب حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے ایسے جاہل علمائے کرام ، سیاست دانوں اور عوامی شرپسند عناصر کو چاہئے کہ ایسے مسائل کو ہوا دینے اور قانون ہاتھ میں لینے سے گریز کرنا چاہئے اور اگرپھر بھی انہیں تسکین حاصل نہیں ہوتی تو سب سے پہلے نواز شریف کا گریبان پکڑیں جن کے دور حکومت میں اس مندر کی تعمیر کیلئے زمین الاٹ کی گئی اور انہوں نے مندر تعمیر کرنے کی اجازت دی، اس کے بعد عمران خان حکومت کی باری آتی ہے جو ابھی تک اس بات پر غور کر رہی ہے کہ انہیں مندر کی تعمیر کیلئے مطلوبہ رقم فراہم کرنا ہے یا نہیں،ان شرپسندوں وسیاستدانوں سے التماس ہے کہ وہ کچھ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے صرف اپنے سیاسی فائدے کیلئے ایسی بیان بازی سے گریز کریں تاکہ ریاست میں موجود اقلیتی عوام اپنی پوری مذہبی آزادی کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسرکر سکیں۔
پاکستان کیونکہ ایک ترقی پذیر ملک ہے، اس لئے میری طرح پاکستان کے بیشتر شہری دیار غیر میں بسلسلہ روزگارگئے ہوئے ہیں یا پوری دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم ہیں۔ اسی طرح میرے اردگرد بسنے والے بہت سے پاکستانی دوستوں نے مختلف نوعیت کے مسائل سے مجھے آگاہ کیااور میرے کچھ قارئین کی طرف سے بھی مجھے کہا گیا کہ میں اپنے کالمز میں ان اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کو بھی جگہ دیاکروں۔ آج کل پاکستان سے سکالر شپ پروگرام کے تحت اور اپنے ذاتی خرچوں پرآئے ہوئے طالب علموں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ اس قدر پریشان ہیں کہ ہر سٹوڈنٹ کی ایک اپنی ہی سٹوری ہے جس کو سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ تین ماہ سے جاری کرونا وائرس کی وباء کے باعث یہاں اور دنیا بھر میں تعلیمی ادارے بند ہیں اور وہ یہاں سے اپنے ملک واپس بھی نہیں جا سکتے،پارٹ ٹائم کام کرکے اپنا خرچ برداشت کرتے ہیں اور اس کمائی سے ہی اپنی پڑھائی کیلئے فیسوں کا بندوبست کرتے تھے، کرونا کی وباء کے بعد انٹرنیشنل فلائٹس آپریشن بند ہے اور جو تھوڑا بہت پی آئی اے انہیں واپس لانے کی کوشش میں سرگرداں دکھائی دے رہی تھی، اسے بھی یورپین یونین کی طرف سے ناقص کارکردگی کے باعث بند کر دیا ہے۔ یورپین یونین کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پی آئی اے کے طیارے اس قابل ہی ہیں کہ انہیں پرواز کی اجازت دی جائے۔ اوپر سے نہلے پے دیہلا یہ ہوا کہ پی آئی اے کی جانب سے پائلٹس کی جعلی اور دونمبر ڈگریوں پر بھرتی کی خبر نے پوری دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ خدشہ ہے کہ یورپین یونین کی دیکھا دیکھی مڈل ایسٹ، فار ایسٹ اوربراعظم آسٹریلیا کے ممالک بھی پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی نا لگا دیں۔ لیکن مجال ہے حکومتی اداروں میں کسی بھی قسم کی فکر لاحق ہوئی ہو۔ اوپر سے آجکل آئے روز پاکستان کے بیشتر چینلز پر خبر دیکھنے کو ضرور ملتی ہے کہ انٹرنیشنل پروازوں کو کھول دیا گیا ہے، لیکن جب یہاں متعلقہ ایئرلائنز کے دفاترٹکٹوں کے حصول کیلئے فون کر کے پوچھا جائے تو وہ اس خبر کو غلط اور من گھڑت قرار دیتے ہیں۔ پی آئی اے پر پابندی سے قبل تک پی آئی اے کی ٹکٹوں کی فروخت کی ساری ذمہ داری پاکستانی ایمبیسی اور کونصلیٹ دفاتر کو سونپ دی گئی تھی، جس کے بعد وہی مثال بہت حد تک صحیح ثابت ہوئی کہ'' اندھا بانٹے ریوڑیاں ، مڑ مڑ اپنوں کو ''یعنی پاکستانی ایمبیسی یا قونصلیٹ انہی کو ہی ٹکٹ جاری کر رہا تھا جن کی سفارش یا '' کلا'' مضبوط ہو یا وہ جو ٹکٹ کیلئے بلیک منی رشوت کے طور پر دینے کو تیار ہو۔ نارمل حالات میں لندن سے لاہور پاکستان کا کرایہ 500/550 برٹش پاؤنڈز ریٹرن ٹکٹ ہے، اور کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد پی آئی اے کی ٹکٹ ایمبیسی کے عملے کی ملی بھگت سے 1000/1150 پاؤنڈز تک فروخت ہوتی رہی، وہ بھی یکطرفہ۔۔ یعنی اس میں آپ پاکستان سے واپس نہیں آ سکتے بلکہ واپس آنے کیلئے دوبارہ ون وے ٹکٹ خریدنا پڑیگا جو کہ پاکستان میں ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے کا بک رہا ہے۔ کرونا کے آنے کے بعد ایک چیز یہ دیکھنے میں آئی کہ جس چیز کو عام حالات میں کوئی پوچھتا نہیں ، اسے کسی حوالے سے کرونا کے ساتھ ملا دیں تو اس چیز کی قیمت میں چار پانچ گنا اضافہ ضرور ہو جائیگا، کرونا کے عروج کے دنوں میں سوشل میڈیا پر سنامکی کہوہ بنانے کی جڑی بوٹیوں کو کوئی پوچھتا نہیں تھا بلکہ اسے کوئی جانتا تک نا تھا ، پاکستان کے حکیم یا پنساری کی دکان پر 200/250 روپے کلو والی یہ سنا مکی کی بوٹیاں آج کل 3000 روپے کلو میں فروخت ہو رہی ہیں،حالانکہ سنامکی کہوہ ان لوگوں کیلئے فائدہ مند ہے جو قبض کا شکار ہوں ، اس کہوہ کو اگر قبض کے مرض میں مبتلا مریض پئے تو اس کی قبض ٹوٹ جاتی ہے لیکن اسے کسی نیم حکیم نے کرونا کے علاج کا نسخہ قرار دیدیا۔ کچھ انجکشن بھی مارکیٹ سے صرف اس لئے نایاب یا چار پانچ سو گنا مہنگے بکتے دیکھے گئے جو کبھی بھی اتنی اہمیت کے حامل نا تھے۔اب انٹرنیشنل ایئرلائنز والوں کا یہ مئوقف ہے کہ پاکستان گورنمنٹ آئے روز انٹرنیشنل فلائٹس کو آنے کی اعلان کی حد تک اجازت تو دے دیتی ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ اور اپنا حکم واپس لے لیا جاتا ہے۔ ابھی تک پاکستان میں پھنسے ہزاروں اوورسیز پاکستانی واپس اپنے اپنے ممالک کو جانے کیلئے لاکھوں روپے کے ون وے ایئرٹکٹ خریدنے کیلئے بے چین ہیں لیکن پاکستان نے انٹرنیشنل پروازوں کے پاکستان میں لینڈ کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ جس کا خمیازہ بیرون ممالک مقیم پاکستانی اور خود اپنے ملک میں محصور تارکین وطن بھگت رہے ہیں۔شاید ہی کسی یورپین ملک کے پاکستانی سفارتخانے کے عملے کی رپورٹ اچھی آئی ہو، پاکستانی سفارتخانے میں کام کرنے والے ہر اہلکار نے اس چار دیواری میں اپنی ہی '' دو اینٹوں والی مسجد'' کی طرح حکومت قائم کر رکھی ہوتی ہے۔ اور اس قدر بدتمیز عملہ کام کر رہا ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی شہریوں کے ٹیکس کے پیسے کے اوپر پلنے والے دنیا بھر کے سفارتخانے کے بداخلاق عملے کو ہنگامی بنیادوں پر لگام ڈالی جائے۔ جو اپنے ہی ملک کے شہریوں سے تو سوتیلی ما ں جیسا سلوک کرتے ہیں لیکن اگرکوئی غیرملکی یا گورا اپنے کسی ذاتی کام کے سلسلے میں پاکستانی ایمبیسی میں داخل ہو جائے تو یہ انگریزوں کے ذہنی غلام واقعی اس وقت ان کے غلام کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کے ساتھ ایسے سلوک کرتے ہیں کہ جیسے وہ گورا واقعی ان کا آقا ہے اور یہ ان کے غلام۔جناب مشیر اوورسیز پاکستانیز زلفی بخاری سے درخواست ہے کہ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کی بجائے ان تمام معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوئی صورت نکالیں، اور انٹرنیشنل فلائٹ کو اوپن کرنے کے معاملے پر بھی سچ اور صحیح وقت کا تعین کریں،تاکہ بیرون ممالک اور خود اپنے ملک میں پھنسے پاکستانیوں کو سکھ کا سانس آئے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید عباس انور کے کالمز
-
خان صاحب !ٹیلی فونک شکایات یا نشستاً، گفتگواً، برخاستاً
منگل 25 جنوری 2022
-
خودمیری اپنی روداد ، ارباب اختیار کی توجہ کیلئے
منگل 4 جنوری 2022
-
پاکستان کے ولی اللہ بابے
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
''پانچوں ہی گھی میں اور سر کڑھائی میں''
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
کورونا کی تباہ کاریاں۔۔۔آہ پیر پپو شاہ ۔۔۔
جمعہ 22 اکتوبر 2021
-
تاریخ میں پہلی بار صحافیوں کااحتساب اورملکی صورتحال
اتوار 19 ستمبر 2021
-
کلچر کے نام پر پاکستانی ڈراموں کی '' ڈرامہ بازیاں''
پیر 13 ستمبر 2021
-
طالبان کا خوف اور سلطنت عثمانیہ
اتوار 5 ستمبر 2021
سید عباس انور کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.