
''آپ ایسا کریں کہ آپ کل آ جائیں''
ہفتہ 11 جولائی 2020

سید عباس انور
(جاری ہے)
ادھر انڈیا اور چین کی ALOC ایکچول لائن آف کنٹرول کے حالات بھی سخت تشویش ناک ہیں، اسی گزرے ہوئے ہفتے کے شروع میں وزیراعظم مودی نے ایک بیان جاری کیا کہ انڈیا اور چین کے درمیان حالات معمول کے مطابق ہیں، اور بارڈر پر سب اچھا ہے، دونوں ممالک اپنی اپنی جگہ پر پرامن کھڑے ہیں، اور چین نے کسی بھی جگہ انڈیا کے بارڈر کو کراس نہیں کیا۔ اسی قسم کے بھونڈے اور جھوٹ پر مبنی بیان کا خود انڈیا کے میڈیا نے ہی مودی کا بھانڈہ پھوڑ دیا۔مبینہ طور پر انڈیا میڈیا نے مودی کا تمسخر اڑاتے ہوئے اسے من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی قرار دیا۔اس مودی کے جھوٹے بیان کے بعد انڈیا کی عوام کی آنکھیں انڈین میڈیا نے بھی کھول کر رکھ دی ہیں۔ اب بھارت کی عوام مودی حکومت کے خلاف سخت غم و غصہ رکھتی ہے۔ انڈین میڈیا کے مطابق آنے والے چند دنوں میں انڈین آرمی چیف اور بھارتی نیشنل سیکورٹی کونسل کے سربراہ یا بھارتی وزیر خارجہ امیت شاہ میں سے کوئی ایک بڑی شخصیت ذہنی کرب و پریشر کے باعث استعفٰی دینے والی ہیں۔ کیونکہ یہ شخصیات جو اس وقت نہایت سخت اور بڑے ذہنی کرب میں مبتلا ہیں، اس کی وجہ صرف ایک چائے والا ہے۔ یہ لو گ کسی بھی اخباری پریس کانفرنس میں بھارتی صحافیوں کے سوالوں کے جوابات دینے سے قاصر ہیں، اور یہ حضرات خود مودی کی پالیسیوں پر ناک پھونک چڑھاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔بھارتیوں کو ابھی تک یقین نہیںآ رہا کہ چند ہفتوں قبل انڈین آرمی کے 20 فوجی جوانوں کو چینی افواج پتھروں اورکیل لگے ڈنڈوں کی مدد سے جہنم واصل کر چکے ہیں، حالانکہ انٹرنیشنل میڈیا کی جانب سے یہ اموات 20 کی بجائے 60 سے اوپر کی ہے۔کیونکہ یہ جوان اور افسران جو اس وقت لداخ، سکم، اورگولان ویلی میں تعینات ہیں ان کے پاس کسی قسم کا کوئی اسلحہ نہیں، جس سے وہ اپنے دفاع میں کوئی کارروائی کر سکیں۔انڈین آرمی کے جوانوں اور افسران میں بددلی بہت زیادہ عروج پر ہے، مختلف حیلوں بہانوں کا سہارا لیتے ہوئے انڈین آرمی کے جوان و افسران چھٹیوں کی درخواستیں دے کر گھر کو جانے کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں۔ وہاں رہتے ہوئے انہیں اپنی جانوں کا خطرہ کھلی تلوار کی طرح ان کے اوپر لٹکتا ہوا محسوس ہو رہا ہے، یہاں پر بھی انڈیا اپنی آرمی کو کسی قسم کی کوئی سپورٹ کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتا۔بحرحال اس وقت انڈیا ،نیپال اور چین کے بارڈر پر حالات انتہائی خطرہ ناک صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ جس کے باعث عالمی تجزیہ نگاروں نے اپنے تجزیوں میں یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ حالات بگڑتے بگڑتے تیسری عالمی جنگ کی طرف جا رہے ہیں۔ان بگڑتے حالات کے پس منظر میں چین اور امریکہ کی عرصہ دراز سے جاری سرد جنگ بھی بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔امریکہ نے چند ہفتوں قبل چین سے کہہ دیا ہے کہ جلد ہی چائنا ایئرلائن پر امریکہ کے کسی بھی شہر میں داخلہ پر پابندی لگادی جائیگی۔
ابھی دو روز پہلے یورپ کی طرح امریکہ نے بھی پاکستان کی باکمال لوگوں کی لاجواب سروس پی آئی اے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ پہلے جو ہفتہ میں دو پروازوں کا شیڈول کرونا وائرس کے آ جانے سے شروع ہوا تھا اس پر امریکہ نے پابندی عائد کر دی ہے۔ پی آئی اے کے سربراہ نے بھی دو روز قبل عمران خان سے ملاقات کی ہے۔اور انہیں پی آئی اے کو ری کنسٹرکٹ کرنے پر تبادلہ خیال کیا ہے، اور پی آئی اے میں جعلی ڈگری یا جعلی لائسنس پر بھرتیوں میں شامل پائلٹ اور دوسرے تمام گراؤنڈ عملے کو نکالنے اور اسے بالکل صاف کرنے کا عمل جاری ہے۔ اب اللہ کرے ایسی تمام کالی بھیڑوں سے پی آئی اے کو پاک کر کے اسے صحیح معنوں میں باکمال لوگوں کی لاجواب سروس کی شکل میں واپس لے آئیں۔ کیونکہ ساری دنیا کو اس بات کا علم ہے کہ ایئرلائن میں ویڈیو فلم سروس سب سے پہلے پی آئی اے نے ہی شروع کی، ایمریٹس اور اتحاد ایئرلائن کو ٹریننگ اور سروس میں چلانے کی تمام ذمہ دار یہی پی آئی اے ہے۔ اور اب اس کی سروس کویورپ اور امریکہ میں صرف اس لئے روک دیا گیا کہ مسافروں کی سیفٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس قومی اداروں میں ان کالی بھیڑوں کی لوٹ مار کی وجہ سے اس کا وہ حال ہوا کہ جرمنی سے پی آئی اے کا سربراہ پی آئی اے کو کنٹرول کرنے کیلئے بلایا جاتا ہے اور وہ اس کمپنی کے ایک پورے جہاز کو ہی لیکر جرمنی چلا جاتا ہے کہ مجھے میرے کام کا معاوضہ ادا نہیں کیا گیا۔پی آئی اے میں پائلٹ، انجینئر ز، ٹکٹنگ ، کیٹرنگ اور ناجانے کتنے ہی شعبے ہیں، اور آپ اندازہ لگائے ہر شعبے کی اپنی ایک ورکر یونین بنی ہوئی ہے، جو آئے روز اپنے اپنے جائز و ناجائز مطالبات کو منوانے کے چکر میں احتجاجی ہڑتالوں کی کال دے کر ملکی معیشت پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں اور انہی یونینز میں بے شمار ورکروں کو بھی سفارشی کوٹے پر بھرتی کیا گیا ، جو ابھی تک پی آئی اے جیسے منافع بخش ادارے کو اندر ہی اندر چاٹ رہے ہیں۔ حکومت وقت کو چاہئے کہ ایسے تمام کرونا وائرس اور دیمک شدہ افراد سے قومی ایئر لائن کی جان چھڑائی جائے اور ایسے حرام خور لوگوں سے پاک کیا جائے تاکہ یہ ادارہ اپنے پاؤں پر پراعتماد طریقے سے کھڑا ہوسکے۔
ملک میں صرف پی آئی اے کے پائلٹ و انجینئرز حضرات ہی نہیں بلکہ ان جعلی ڈگریوں اور ماضی کے ناجائز کوٹوں و سفارشوں پر بھرتی ہونیوالے تمام افراد کا بھی محاسبہ کیا جائے ، کیونکہ پاکستان کے قومی و صوبائی دفاتر میں موجود بے شمار ایسے افراد موجود ہیں جو سرکاری نوکری تو کر رہے ہیں لیکن کام بالکل نہیں کر رہے۔ بیشتر تو ایسے بھی ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ان دفاتر میں اچھی اچھی پوسٹوں پر تعینات تو ہیں لیکن ان کو اپنے ادارے کی کارکردگی کے بارے میں کچھ علم نہیں، وہ ان دفاتر میں آئے سائل کیلئے رحمت کی بجائے زحمت بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے پورے پاکستان میں سرکاری دفاتروں میں ایک جملہ جو ہر ورکر کے منہ پر ہوتا ہے کہ '' آپ ایسا کریں کہ آپ کل آ جائیں'' ۔۔ سائل اپنا کام کروانے کیلئے جب تک ان کی جیب گرم نہیں کرتا یا نیلے یاکھٹے رنگ کے کاغذوالے کافی سارے نوٹ ان کی جیب میں نہیں ڈالتا ، تو اسے یہی فقرے بار بار سننے کو ملتے ہیں، کہ '' آپ ایسا کریں کہ آپ کل آ جائیں'' ۔۔ اور وہ سائل اس دفاتر کے اتنے چکر لگاتا ہے کہ وہ خود اسی ڈیپارٹمنٹ کا کوئی ملازم لگنے لگتا ہے۔ اسی سے متعلق مجھے میرے بابا جی جناب اشفاق احمد )زاویہ والے( ایک دفعہ فرماتے ہیں کہ ایک برتھ سرٹیفیکٹ ہر بندہ کا اپنا اثاثہ ہے، اس کا فائدہ نا کسی دوسرے کو ہو سکتا ہے، اور نا کوئی بندہ کسی کی جنم پرچی سے کسی قسم کا کوئی فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ اسے حاصل کرنے کیلئے جتنی تگ ودو کی ضرورت ہے ، اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے کہ جو کسی وجہ سے میونسپل کارپوریشن اپنا برتھ سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کیلئے متعلقہ دفتر گیا ہو، چھ بندوں کے پاس ہوتا ہوا وہ ذلیل و خوار ہو جاتا ہے، کبھی کوئی بندہ اپنی سیٹ پر نہیں تو کبھی رجسٹرڈ اندراج میں کوئی غلطی نکال کر کلرکس حضرات جب تک اپنی تسلی قائداعظم کی نیلی یا کھٹی تصویر والے نوٹ کو اپنی جیب میں نہیں ڈال لیتے تو ان کا یہی جواب ہوتا ہے کہ '' آپ ایسا کریں کہ آپ کل آ جائیں'' ۔۔یہ تو وہ واقع ہے جو میرے ساتھ بھی پیش آ چکا ہے۔ اور یقین جانئے دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ ایسے بے شمار سائل جو قریبی شہروں سے میونسپل کارپوریشن جیسے کئی دفاتر میں دھکے کھاتے اور پھرتے ہیں ان کے ساتھ کلرکس اور اس ڈیپارٹمنٹ کے اچھے عہدوں پر کام کرنیوالے افراد کو اللہ ہدایت دے۔ قومی و صوبائی دفاتر میں ایسے افراد بھی کسی ٹڈی دل کی یلغار اورلکڑی چاٹنے والی دیمک سے کم نہیں ۔ پی آئی اے ، پولیس ، واپڈا، سرکاری سکول،ڈسٹرکٹ سطح پر بڑے بڑے سرکاری ہسپتال،ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، غرض سول سیکرٹریٹ میں تو بے شمار ایسے دفاتر ، ڈیپارٹمنٹ ہیں جہاں صوبائی یا قومی سطح پر دوسرے شہروں سے آئے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ کسی بھی دوسرے محکمہ کے سربراہ کا یہی کام ہے کہ اپنے اپنے محکمہ میں ایسے تمام افراد کی سرکوبی کیلئے بھرپور اقدامات اٹھائے اور اپنے اپنے محکموں کے مین دروازوں پر ایک نوٹس آویزاں کیا جانا چاہئے کہ اگر اس محکمہ کا کوئی ملازم کسی کوناجائز تنگ کرے یا رشوت وصول کرنے پر اصرار کرے تو اس کی اطلاع اس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کو فوراً کی جائے۔ اور اس دفترکے سربراہ کا بھی یہی فرض بنتا ہے کہ ایسے روز روز خوار ہوتے ہوئے سائلوں کی داد رسی کیلئے خود اپنے اے سی والے کمروں سے نکل کر ان سے ان کے مسائل پوچھے اور جلد از جلد ان کا مسئلہ حل کروا کر ان سے دعاؤں کی صورت میں جنت کمائے۔سب سے بڑھ کر حکومت کو بھی چاہئے کہ ان صبح سے شام تک کام کرنے والے سرکاری ملازموں کی تنخواہ بڑھانے کے بارے میں بھی سوچے، کیونکہ سوائے چند سیاست دانوں کے بیشتر جو میٹرک پاس یا ایف اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسمبلیوں میں تو پہنچ جاتے ہیں لیکن ان سے غریب عوام کے مسائل حل کرنے کا کوئی سروکار نہیں ہوتا، ان لوگوں کی تنخواہوں میں توآئے روز تین تین سو گنا اضافہ کر دیا جاتا ہے اور بے چارے یہ ملازم جو سخت محنت بھی کرتے ہیں اور اپنی اصلی ڈگریوں اور میرٹ پر اگر وہ ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو ان کے ساتھ تنخواہیں نا بڑھانا بہت بڑی زیادتی ہے۔ جس کا وہ سالوں انتظار کرتے ہیں کہ اگلے بجٹ میں تنخواہ میں چند سو روپے ضرور اضافہ ہو جائیگا۔ انشااللہ
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید عباس انور کے کالمز
-
خان صاحب !ٹیلی فونک شکایات یا نشستاً، گفتگواً، برخاستاً
منگل 25 جنوری 2022
-
خودمیری اپنی روداد ، ارباب اختیار کی توجہ کیلئے
منگل 4 جنوری 2022
-
پاکستان کے ولی اللہ بابے
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
''پانچوں ہی گھی میں اور سر کڑھائی میں''
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
کورونا کی تباہ کاریاں۔۔۔آہ پیر پپو شاہ ۔۔۔
جمعہ 22 اکتوبر 2021
-
تاریخ میں پہلی بار صحافیوں کااحتساب اورملکی صورتحال
اتوار 19 ستمبر 2021
-
کلچر کے نام پر پاکستانی ڈراموں کی '' ڈرامہ بازیاں''
پیر 13 ستمبر 2021
-
طالبان کا خوف اور سلطنت عثمانیہ
اتوار 5 ستمبر 2021
سید عباس انور کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.