''آپ ایسا کریں کہ آپ کل آ جائیں''

ہفتہ 11 جولائی 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

گزشتہ ہفتے پاکستان میں ایسے بہت سارے سیاسی واقعات رونما ہو گئے کہ ٹی وی پر سیاسی ٹاک شوز اور سوشل میڈیا پر مختلف تجزیہ نگاروں کے مطابق عمران خان ابھی گئے کہ گئے۔لیکن اس سارے سیاسی طوفان کا مقابلہ عمران خان نے سیاسی دلیری اور جانفشانی سے کیا اور سرخرو ہوئے۔ پچھلے ہفتے کے شروع میں پہلے قومی اسمبلی میں موجودہ بجٹ کے پاس کرنے کیلئے حکومتی بینچوں میں سخت دھواں دھار تقاریر کیں گئیں اور اس پر سونے پے سہاگہ کہ سندھ سے ایم کیو ایم اور بلوچستان سے مینگل گروپ ناراض ہو کر اپوزیشن بیچوں میں جا بیٹھنے کے باعث قوی امکان تھا کہ بجٹ پاس بھی ہو سکتا ہے کہ عمران خان حکومت کو کم ووٹوں کے باعث ناکامی کا سامنا کرنا پڑے لیکن اللہ کی مہربانی سے بہت ہی کم مارجن سے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف بحٹ 2020-21 ء پاس کرانے میں کامیاب ہو گئی۔

(جاری ہے)

اس کے بعد نیب کی جانب سے قائم جے آئی ٹی کی طرف سے زرداری اورفریال تالپور پر فردجرم عائد کرنے کا مرحلہ اور پھر اس مرحلہ کا مئوخر ہو جانا، سیاسی حلقوں میں خاصی ٹینشن کا باعث بنا رہا۔ اس کے بعد دہشت گردی کی عدالت نے پیپلزپارٹی کے سابق کارکن عزیر بلوچ پر بھی فردجرم عائد کر دی گئی، آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے رائٹ ہینڈ سمجھے جانے والے عزیر بلوچ صوبہ سندھ خاص کر لیاری کراچی سے تعلق رکھنے والے ملکی و بین الاقومی سطح پر لمبی چوڑی دہشتگردی میں ملوث رہے، لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت اب یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ ماضی میں عزیر بلوچ کا تعلق پیپلزپارٹی سے رہا ہے۔

اس ملی جلی کیفیت میں موجودہ سندھ حکومت کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کی پہلے اجازت اور اس کے بعد مندر کی تعمیر کا کام رک جانا، ملکی سطح پر آٹے ، چینی ،پٹرول، مرغی ، پھل و سبزی اور ضروریات زندگی کی کئی اور اشیاء کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے پریشان قومی و صوبائی حکومتوں کے فیصلوں سے پاکستانی عوام میں سخت پریشانی اور بے چینی کے باعث ایسا لگ رہا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت والا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ، کسی کو کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔

اب جا کر اس ہفتے کے آخر میں حالات کچھ معمول پر آئے ہیں، یا یوں کہہ لیں کہ عوام موجودہ مہنگائی کی صورتحال کو برداشت کرتے کرتے اس کے عادی ہو گئے ہیں،اور زندگی ریمکے ریمکے رواں دواں ہو چکی ہے۔
 ادھر انڈیا اور چین کی ALOC ایکچول لائن آف کنٹرول کے حالات بھی سخت تشویش ناک ہیں، اسی گزرے ہوئے ہفتے کے شروع میں وزیراعظم مودی نے ایک بیان جاری کیا کہ انڈیا اور چین کے درمیان حالات معمول کے مطابق ہیں، اور بارڈر پر سب اچھا ہے، دونوں ممالک اپنی اپنی جگہ پر پرامن کھڑے ہیں، اور چین نے کسی بھی جگہ انڈیا کے بارڈر کو کراس نہیں کیا۔

اسی قسم کے بھونڈے اور جھوٹ پر مبنی بیان کا خود انڈیا کے میڈیا نے ہی مودی کا بھانڈہ پھوڑ دیا۔مبینہ طور پر انڈیا میڈیا نے مودی کا تمسخر اڑاتے ہوئے اسے من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی قرار دیا۔اس مودی کے جھوٹے بیان کے بعد انڈیا کی عوام کی آنکھیں انڈین میڈیا نے بھی کھول کر رکھ دی ہیں۔ اب بھارت کی عوام مودی حکومت کے خلاف سخت غم و غصہ رکھتی ہے۔

انڈین میڈیا کے مطابق آنے والے چند دنوں میں انڈین آرمی چیف اور بھارتی نیشنل سیکورٹی کونسل کے سربراہ یا بھارتی وزیر خارجہ امیت شاہ میں سے کوئی ایک بڑی شخصیت ذہنی کرب و پریشر کے باعث استعفٰی دینے والی ہیں۔ کیونکہ یہ شخصیات جو اس وقت نہایت سخت اور بڑے ذہنی کرب میں مبتلا ہیں، اس کی وجہ صرف ایک چائے والا ہے۔ یہ لو گ کسی بھی اخباری پریس کانفرنس میں بھارتی صحافیوں کے سوالوں کے جوابات دینے سے قاصر ہیں، اور یہ حضرات خود مودی کی پالیسیوں پر ناک پھونک چڑھاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

بھارتیوں کو ابھی تک یقین نہیںآ رہا کہ چند ہفتوں قبل انڈین آرمی کے 20 فوجی جوانوں کو چینی افواج پتھروں اورکیل لگے ڈنڈوں کی مدد سے جہنم واصل کر چکے ہیں، حالانکہ انٹرنیشنل میڈیا کی جانب سے یہ اموات 20 کی بجائے 60 سے اوپر کی ہے۔کیونکہ یہ جوان اور افسران جو اس وقت لداخ، سکم، اورگولان ویلی میں تعینات ہیں ان کے پاس کسی قسم کا کوئی اسلحہ نہیں، جس سے وہ اپنے دفاع میں کوئی کارروائی کر سکیں۔

انڈین آرمی کے جوانوں اور افسران میں بددلی بہت زیادہ عروج پر ہے، مختلف حیلوں بہانوں کا سہارا لیتے ہوئے انڈین آرمی کے جوان و افسران چھٹیوں کی درخواستیں دے کر گھر کو جانے کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں۔ وہاں رہتے ہوئے انہیں اپنی جانوں کا خطرہ کھلی تلوار کی طرح ان کے اوپر لٹکتا ہوا محسوس ہو رہا ہے، یہاں پر بھی انڈیا اپنی آرمی کو کسی قسم کی کوئی سپورٹ کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتا۔

بحرحال اس وقت انڈیا ،نیپال اور چین کے بارڈر پر حالات انتہائی خطرہ ناک صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ جس کے باعث عالمی تجزیہ نگاروں نے اپنے تجزیوں میں یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ حالات بگڑتے بگڑتے تیسری عالمی جنگ کی طرف جا رہے ہیں۔ان بگڑتے حالات کے پس منظر میں چین اور امریکہ کی عرصہ دراز سے جاری سرد جنگ بھی بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔امریکہ نے چند ہفتوں قبل چین سے کہہ دیا ہے کہ جلد ہی چائنا ایئرلائن پر امریکہ کے کسی بھی شہر میں داخلہ پر پابندی لگادی جائیگی۔


 ابھی دو روز پہلے یورپ کی طرح امریکہ نے بھی پاکستان کی باکمال لوگوں کی لاجواب سروس پی آئی اے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ پہلے جو ہفتہ میں دو پروازوں کا شیڈول کرونا وائرس کے آ جانے سے شروع ہوا تھا اس پر امریکہ نے پابندی عائد کر دی ہے۔ پی آئی اے کے سربراہ نے بھی دو روز قبل عمران خان سے ملاقات کی ہے۔اور انہیں پی آئی اے کو ری کنسٹرکٹ کرنے پر تبادلہ خیال کیا ہے، اور پی آئی اے میں جعلی ڈگری یا جعلی لائسنس پر بھرتیوں میں شامل پائلٹ اور دوسرے تمام گراؤنڈ عملے کو نکالنے اور اسے بالکل صاف کرنے کا عمل جاری ہے۔

اب اللہ کرے ایسی تمام کالی بھیڑوں سے پی آئی اے کو پاک کر کے اسے صحیح معنوں میں باکمال لوگوں کی لاجواب سروس کی شکل میں واپس لے آئیں۔ کیونکہ ساری دنیا کو اس بات کا علم ہے کہ ایئرلائن میں ویڈیو فلم سروس سب سے پہلے پی آئی اے نے ہی شروع کی، ایمریٹس اور اتحاد ایئرلائن کو ٹریننگ اور سروس میں چلانے کی تمام ذمہ دار یہی پی آئی اے ہے۔ اور اب اس کی سروس کویورپ اور امریکہ میں صرف اس لئے روک دیا گیا کہ مسافروں کی سیفٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس قومی اداروں میں ان کالی بھیڑوں کی لوٹ مار کی وجہ سے اس کا وہ حال ہوا کہ جرمنی سے پی آئی اے کا سربراہ پی آئی اے کو کنٹرول کرنے کیلئے بلایا جاتا ہے اور وہ اس کمپنی کے ایک پورے جہاز کو ہی لیکر جرمنی چلا جاتا ہے کہ مجھے میرے کام کا معاوضہ ادا نہیں کیا گیا۔

پی آئی اے میں پائلٹ، انجینئر ز، ٹکٹنگ ، کیٹرنگ اور ناجانے کتنے ہی شعبے ہیں، اور آپ اندازہ لگائے ہر شعبے کی اپنی ایک ورکر یونین بنی ہوئی ہے، جو آئے روز اپنے اپنے جائز و ناجائز مطالبات کو منوانے کے چکر میں احتجاجی ہڑتالوں کی کال دے کر ملکی معیشت پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں اور انہی یونینز میں بے شمار ورکروں کو بھی سفارشی کوٹے پر بھرتی کیا گیا ، جو ابھی تک پی آئی اے جیسے منافع بخش ادارے کو اندر ہی اندر چاٹ رہے ہیں۔

حکومت وقت کو چاہئے کہ ایسے تمام کرونا وائرس اور دیمک شدہ افراد سے قومی ایئر لائن کی جان چھڑائی جائے اور ایسے حرام خور لوگوں سے پاک کیا جائے تاکہ یہ ادارہ اپنے پاؤں پر پراعتماد طریقے سے کھڑا ہوسکے۔
 ملک میں صرف پی آئی اے کے پائلٹ و انجینئرز حضرات ہی نہیں بلکہ ان جعلی ڈگریوں اور ماضی کے ناجائز کوٹوں و سفارشوں پر بھرتی ہونیوالے تمام افراد کا بھی محاسبہ کیا جائے ، کیونکہ پاکستان کے قومی و صوبائی دفاتر میں موجود بے شمار ایسے افراد موجود ہیں جو سرکاری نوکری تو کر رہے ہیں لیکن کام بالکل نہیں کر رہے۔

بیشتر تو ایسے بھی ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ان دفاتر میں اچھی اچھی پوسٹوں پر تعینات تو ہیں لیکن ان کو اپنے ادارے کی کارکردگی کے بارے میں کچھ علم نہیں، وہ ان دفاتر میں آئے سائل کیلئے رحمت کی بجائے زحمت بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے پورے پاکستان میں سرکاری دفاتروں میں ایک جملہ جو ہر ورکر کے منہ پر ہوتا ہے کہ '' آپ ایسا کریں کہ آپ کل آ جائیں'' ۔

۔ سائل اپنا کام کروانے کیلئے جب تک ان کی جیب گرم نہیں کرتا یا نیلے یاکھٹے رنگ کے کاغذوالے کافی سارے نوٹ ان کی جیب میں نہیں ڈالتا ، تو اسے یہی فقرے بار بار سننے کو ملتے ہیں، کہ '' آپ ایسا کریں کہ آپ کل آ جائیں'' ۔۔ اور وہ سائل اس دفاتر کے اتنے چکر لگاتا ہے کہ وہ خود اسی ڈیپارٹمنٹ کا کوئی ملازم لگنے لگتا ہے۔ اسی سے متعلق مجھے میرے بابا جی جناب اشفاق احمد )زاویہ والے( ایک دفعہ فرماتے ہیں کہ ایک برتھ سرٹیفیکٹ ہر بندہ کا اپنا اثاثہ ہے، اس کا فائدہ نا کسی دوسرے کو ہو سکتا ہے، اور نا کوئی بندہ کسی کی جنم پرچی سے کسی قسم کا کوئی فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔

اسے حاصل کرنے کیلئے جتنی تگ ودو کی ضرورت ہے ، اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے کہ جو کسی وجہ سے میونسپل کارپوریشن اپنا برتھ سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کیلئے متعلقہ دفتر گیا ہو، چھ بندوں کے پاس ہوتا ہوا وہ ذلیل و خوار ہو جاتا ہے، کبھی کوئی بندہ اپنی سیٹ پر نہیں تو کبھی رجسٹرڈ اندراج میں کوئی غلطی نکال کر کلرکس حضرات جب تک اپنی تسلی قائداعظم کی نیلی یا کھٹی تصویر والے نوٹ کو اپنی جیب میں نہیں ڈال لیتے تو ان کا یہی جواب ہوتا ہے کہ '' آپ ایسا کریں کہ آپ کل آ جائیں'' ۔

۔یہ تو وہ واقع ہے جو میرے ساتھ بھی پیش آ چکا ہے۔ اور یقین جانئے دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ ایسے بے شمار سائل جو قریبی شہروں سے میونسپل کارپوریشن جیسے کئی دفاتر میں دھکے کھاتے اور پھرتے ہیں ان کے ساتھ کلرکس اور اس ڈیپارٹمنٹ کے اچھے عہدوں پر کام کرنیوالے افراد کو اللہ ہدایت دے۔ قومی و صوبائی دفاتر میں ایسے افراد بھی کسی ٹڈی دل کی یلغار اورلکڑی چاٹنے والی دیمک سے کم نہیں ۔

پی آئی اے ، پولیس ، واپڈا، سرکاری سکول،ڈسٹرکٹ سطح پر بڑے بڑے سرکاری ہسپتال،ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، غرض سول سیکرٹریٹ میں تو بے شمار ایسے دفاتر ، ڈیپارٹمنٹ ہیں جہاں صوبائی یا قومی سطح پر دوسرے شہروں سے آئے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ کسی بھی دوسرے محکمہ کے سربراہ کا یہی کام ہے کہ اپنے اپنے محکمہ میں ایسے تمام افراد کی سرکوبی کیلئے بھرپور اقدامات اٹھائے اور اپنے اپنے محکموں کے مین دروازوں پر ایک نوٹس آویزاں کیا جانا چاہئے کہ اگر اس محکمہ کا کوئی ملازم کسی کوناجائز تنگ کرے یا رشوت وصول کرنے پر اصرار کرے تو اس کی اطلاع اس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کو فوراً کی جائے۔

اور اس دفترکے سربراہ کا بھی یہی فرض بنتا ہے کہ ایسے روز روز خوار ہوتے ہوئے سائلوں کی داد رسی کیلئے خود اپنے اے سی والے کمروں سے نکل کر ان سے ان کے مسائل پوچھے اور جلد از جلد ان کا مسئلہ حل کروا کر ان سے دعاؤں کی صورت میں جنت کمائے۔سب سے بڑھ کر حکومت کو بھی چاہئے کہ ان صبح سے شام تک کام کرنے والے سرکاری ملازموں کی تنخواہ بڑھانے کے بارے میں بھی سوچے، کیونکہ سوائے چند سیاست دانوں کے بیشتر جو میٹرک پاس یا ایف اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسمبلیوں میں تو پہنچ جاتے ہیں لیکن ان سے غریب عوام کے مسائل حل کرنے کا کوئی سروکار نہیں ہوتا، ان لوگوں کی تنخواہوں میں توآئے روز تین تین سو گنا اضافہ کر دیا جاتا ہے اور بے چارے یہ ملازم جو سخت محنت بھی کرتے ہیں اور اپنی اصلی ڈگریوں اور میرٹ پر اگر وہ ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو ان کے ساتھ تنخواہیں نا بڑھانا بہت بڑی زیادتی ہے۔

جس کا وہ سالوں انتظار کرتے ہیں کہ اگلے بجٹ میں تنخواہ میں چند سو روپے ضرور اضافہ ہو جائیگا۔ انشااللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :