واقعی سب اچھا ہے؟

اتوار 25 جولائی 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لیکر اب تک جتنا کردار ملک کے بڑے بڑے شاعروں، بیوروکریٹس، طلبہ،اساتذہ، فنکار،کسان، مزدور حضرات،صحافیوں، ڈاکٹر و انجینئرز ، وکلاء و جج صاحبان اور سیاستدان خواتین و حضرات نے ادا کیا ہے اتنا ہی برصغیر میں بسنے والے اللہ کے ولی جن کو آجکل حرف عام میں '' بابے یا باباجی'' کہا جاتا ہے، بے شک پاکستان کے بنانے میں اللہ تعالٰی کے حضورہمیشہ پرخلوص دعائیں کرتے رہے ہیں اوریقیناً آجکل بھی کر رہے ہیں اور انہی نیک لوگوں کی دعاؤں کے باعث اور سب سے بڑھ کر اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان ایسے ناگزیر حالات کو جھیلتے ہوئے بھی قائم و دائم ہے اور انشااللہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔

ان نیک لوگوں کا شمار اگر کرنا شروع کیا جائے تو یہ کالم تو کیا پورا اخبار ہی کم پڑ جائے۔

(جاری ہے)

ان میں سے ایک بڑے ہی محب وطن جناب محمد اشفاق احمد صاحب کا نام پورے پاکستان کے علاوہ بیرون ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں میں بھی بہت عزت و احترام سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کے اقوال کو آج بھی پاکستان کے بیشتر عوام یاد رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ڈرامہ و ادب کے حوالے سے ان جیسا صوفیانہ انداز میں کبھی بھی کوئی ڈرامہ ٹی وی پر پیش نہ ہوا۔

ان کی تحریر کردہ کتابوں میں پڑھنے والے کا محو ہو جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی کتابوں کی ایک ایک سطر میں پڑھنے والا سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ انسان کو اللہ تعالٰی نے کس مقصد کے تحت اس دنیا میں بھیجا اوروہ اسی کے پاس واپس جانیوالا ہے۔ خوش قسمتی سے بابا جی اشفاق احمد صاحب سے میں خود بھی متعدد مرتبہ مل چکا ہوں اور ان کے شانہ بشانہ بیٹھ کر کئی مرتبہ ان کی کہی ہوئی انمول باتوں کا مزہ لے چکا ہوں۔

1997-98 ء سے پہلے اور بعد میں ہر ہفتے والے روز ان کی رہائش گاہ 21/C ماڈل ٹاؤن لاہور میں شام پانچ تا سات بجے وہ اپنے پرستاروں سے ملاقات کیا کرتے اور انتہائی شفقت بھرے انداز میں ہر ملنے کیلئے آنیوالے سے پیش آتے۔ یہ سلسلہ اس کے بعد بھی کئی عرصہ تک جاری رہا لیکن بوجہ میری یورپ آمد کے میں اس محفل سے محروم سا ہوگیا اور میں ان کا مزیدفیض حاصل نا کر سکا، لیکن یورپ آمد کے بعد بھی میں ان سے ٹیلی فون پر رابطہ میں رہا ۔

مہینے میں ایک آدھ مرتبہ ان کو فون ضرور کرتا اور جب بھی لاہور پاکستان جانا ہوتا تو انہیں سلام کرنے ضرور جاتا۔اب بھی جب لاہور پاکستان جاتاہوں تو باباجی کی قبر پر ضرور حاضری دیتا ہوں۔ان کی چھوٹی سی بولی ہوئی لائن آج بھی ان کی قبر کے کتبہ پر درج ہے ، یہ لائن بابا جی اپنے ٹی وی کے معروف پروگرام '' زاویہ '' کے اختتام میں ضرور بولتے جس کو آج بھی ہر وہ شخص جو اردو بولتا اور سمجھتا ہے ضرور بولتا ہے کہ '' اللہ آپ کو آسانیاں عطا کرے اور آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطا کرے'' ۔

اس چھوٹی سی دعا پر بابا جی فرماتے تھے کہ یہ چھوٹی سی دعا ان بہت ساری دعاؤں کا مرکب ہے جو کوئی بھی بندہ اپنے رب سے مانگتا ہے اور مانگنے کی تمنا کرتا ہے۔ بابا جی ہم بھی اللہ تعالٰی سے دعا کرتے ہیں کہ '' اللہ تعالٰی آپ کو بھی آسانیاں عطا کرے'' ) آمین(
ہم تارکین وطن اپنے ملک سے بہت محبت کرتے ہیں اور چھوٹی سے چھوٹی تکلیف دہ خبر ٹی وی یا اخبار میں پڑھنے پر دلی تکلیف اور کرب میں مبتلا ہوتے ہیں، جب بھی ٹی وی نیوز پر پاکستانی خبروں کو سنتے ہیں تو پاکستانی عوام کے ایسے چھوٹے چھوٹے مسائل سن اور پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

دل یہ ماننے کو تیا ر ہی نہیں ہوتا کہ ہماری زندگی میں کبھی پاکستان بھی ایک ترقی یافتہ ملک بن پائے گا؟ کیونکہ آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے، یہ تو رب کریم ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم بھی بڑے فخر سے کہہ سکیں گے کہ ''ہم بھی پاکستانی ہیں'' ملاوٹ شدہ دودھ پاکستان کی آنے والی نئی نسل کو برباد کر رہا ہے۔ جعلی ادویات استعمال کرکے کوئی بیمار اپنی بیماری سے نجات حاصل نہیں کرپا رہا۔

تعلیمی ادارے ایک کاروباری صنعت کا درجہ اختیار کر گئے ہیں، اور اپنی آنیوالی نسلوں کے والدین سے منہ مانگی فیسیں وصول کر رہے ہیں، ہر تعلیمی ادارے کا اپنا وضع کردہ تعلیمی سلیبس ہے۔ حالانکہ پی ٹی آئی کا ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ ملک کے تمام سکولوں کا تعلیمی نصاب ایک ہی ہو گا، سرکاری سکولوں اور پرائیویٹ سکول میں پڑھنے والے بچے ایک ہی سلیبس پر تعلیم حاصل کر سکیں گے، یہ وعدہ بھی ابھی تک وعدہ ہی ہے، اور لگتا ہے وعدہ ہی رہے گا۔

سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر خواتین و حضرات غریب مریضوں سے ناخوش ہیں۔ مریض ڈاکٹروں سے نالاں ہیں اور غریب آدمی اگر اپنا پیٹ کاٹ کر پرائیویٹ ڈاکٹر کے پاس چلا بھی جائے تو ڈاکٹر کی فیس اور ادویات خریدتے ہوئے اپنی جیب خالی کروا کر ایسا پریشان ہوتا ہے کہ دوبارہ کسی پرائیویٹ ڈاکٹر کے پاس جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ تو وہ بنیادی مسائل ہیں جو میرے ذہن میں اس کالم کو لکھتے ہوئے آئے۔

مجھے تو پاکستان کا کوئی بھی ادارہ ایسا نظر ہی نہیں آتا جو کہ اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام دے رہا ہو۔
1990 سے پہلے پی ٹی وی ایک ہی پاکستان کاواحد نیشنل ٹی وی چینل تھا، ان دنوں پی ٹی وی کے اوپر ایک پروگرام پیش کیا جاتا تھا جس کا نام '' میں اور آپ'' تھا ، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس میں ایک اینکر عوام سے مختلف مسائل پر رائے لیتا تھا ، اور بے ایمان اور کرپٹ لوگوں کا چہرہ پاکستانی عوام کے سامنے عیاں کرتا تھا۔

پی ٹی وی دیکھنے والے عوام کو یاد ہو گاکہ سب اس پروگرام کو بہت پسند کرتے تھے، کچھ عرصہ بعد ہی اس پروگرام کو بند کر دیا گیا کیونکہ اس پروگرام میں کئی ارباب اختیار کے اصلی چہرے سامنے آ جاتے تھے۔ اس کے بعد پرائیویٹ ٹی وی چینلز کا دور شروع ہوا اور ایک مقامی ٹی وی چینل میں ایک نوجوان اینکر اقرار الحسن نے عوامی مسائل پر '' سرعام'' کے نام سے پروگرام شروع کیا۔

اسی پروگرام کی دیکھا دیکھی اب تو ملک کے تقریباً ہر چینلز پر اسی انداز یا اس سے ملتے جلتے کئی پروگرام چل رہے ہیں۔ '' سرعام، جرم انجام، اندھیر نگری اور کوئی دیکھے نا دیکھے'' کی طرح کے پروگرام ہوتے تو بہت اچھے ہیں، لیکن یقین جانئے ایسے پروگرام اور پاکستان کی حالت زار دیکھ کر خودبخود بلڈپریشر بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ایسے ایسے جرم اور دونمبری دیکھنے کو ملتی ہے کہ خودبخود سرشرم سے جھک جاتا ہے۔

آخر ہماری پاکستانی قوم کس طرف جا رہی ہے؟ یہ اینکرز حضرات اپنی محنت اور جان کو خطرے میں ڈال کر باقاعدہ ویڈیو کلپ تیار کر کے ان جرائم پیشہ افراد کی نشاندہی کرتے ہوئے متعلقہ محکماجات کی مدد کرتے ہیں، متعلقہ محکموں کو تو چاہئے ایسے ویڈیو کلپ پرسخت کارروائی کرتے ہوئے ایسے جرم اور جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع کریں لیکن وہ تو خود اس میں شامل ہوتے ہوئے آئندہ کیلئے محتاط رہنے کا اندیہ سنا دیتے ہیں۔

انیکرز کی یہ ساری محنت صرف 30/35 منٹ کے پروگرام کی حد تک رہ جاتی ہے، اور وہ سب جرائم پیشہ افراد اور کرپٹ افسران بالا اگلے ہی دن دوبارہ نئے عزم کے ساتھ غریب عوام کا مختلف انداز میں خون چوسنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اب اگر ہمارے ملک کا وزیر اعظم ایماندار ہے تو وہ اکیلا کیا کیا کرے؟ اور تو اور ابھی چند روز قبل گزرنے والی عید الضحٰی کے موقع پر لاہور کے مقامی چینل کے کچھ رپورٹر روزانہ کی بنیاد پر کیمرے مائیک لئے لاہور کے گردونواح میں قائم مویشی منڈیوں میں پہنچ جاتے اور وہاں موجود قربانی کیلئے آئے جانوروں کے بیوپاری اور گاہکوں سے مختلف جانوروں کی قیمتوں کے متعلق دریافت کرتے، وہاں موجود گاہک وہاں قائم مویشی منڈیوں کے ناقص انتظامات اور وہاں موجود انتظامیہ کے کارکنوں کے بے راہ روا سلوک اور ناجائز ٹیکس کی مد میں رقوم کی وصولیوں کا رونا روتے دکھائی دیتے۔

سرگودھا سے آئے بزرگ بیوپاری کو تو کسی صاحب نے چھیاسی ہزار کے جعلی نوٹ تھماکر دو بکرے لے اڑے تھے، وہ اس پر سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے، لیکن بیچارے وہ کیا کرتے کہ دھوکہ دینے والے دھوکہ دے کر رفوچکر ہو چکے تھے۔ وہاں موجودجانوروں کے اکثر بیوپاری حضرات جانوروں کی مہنگے داموں پر اس کا ذمہ دار وزیراعظم عمران خان کو قرار دیتے، تیز بارش کے نتیجے میں مویشی منڈی اور پورے ملک کی گلیوں میں کھڑے ہونیوالے پانی کا ذمہ دار بھی عمران خان کو ٹھہراتے۔

ان عقل کے اندھوں کو کوئی پوچھے اب ان عارضی مویشی منڈیوں کے انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے بھی ملک کا وزیراعظم ان منڈیوں پر چیک رکھے۔ ان منڈیوں اور ملک بھر کی گلیوں سڑکوں پر بارش کے نتیجے میں کھڑے ہونے والے پانی کے نکاس کیلئے خود اس پانی کی سیوریج کا انتظام کرے۔ یہ تو ضلعی اور صوبائی انتظامیہ کا کام ہے جو اپنا کام ذمہ داری سے نہیں کرتی۔

اس میں عمران خان کا کیا قصور؟ عمران خان کو بھی چاہئے کہ جب تک وہ خود اس میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے ملک بھر کی ضلعی اور صوبائی انتظامیہ کے ارباب اختیار کو تیزاب سے نہیں دھلوائیں گے اس وقت تک نچلے عہدوں پر بیٹھے عملہ کے لوگ سیدھے نہیں ہونگے۔جب تک خود وزیراعظم کے اردگرد وہی پرانے چور لٹیرے، کھوٹے سکے موجود ہیں جو اصل صورتحال کو سامنے آنے ہی نہیں دیتے اور وزیراعظم کو غلط سلط مشورے دے کر مس گائیڈ کرتے رہتے ہیں، اور حیرت کی بات ہے کہ عمران خان بھی سب اچھا کی آواز پر کان دھرتے ہوئے یہی سمجھتے ہیں کہ '' واقعی سب اچھا ہے'' ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :