کیا احتساب عدالت خود احتساب سے مبرا ہے؟؟؟

پیر 26 اکتوبر 2020

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

مجرم جرم کرے اور عدالت سے اسے تحفظ مل جائے یہ تو انصاف کے تصؤرات ہی کے ساتھ ظلم ہے اور کراچی میں قائم احتساب عدالت نے گزشتہ روز عدل کے نام پہ ایک اور ظلم کیا اور پی ایس او میں 23 ارب روپے کی کرپشن کے کیس میں شریک ایک ملزم کامران افتخار لاری کی جانب سے ایک ارب 29 لاکھ کی پلی بارگین کی درخواست منظور کرلی ہے یوں باقی لوٹی گئی رقم کواب ایسے سمجھیئے کہ جیسے کھچڑی کہاں گئی ، کتے کے پیٹ میں  ۔

۔۔
عین ضروری یہ تھا کہ عدالت کی جانب سے یہ راشی و بدعنوان افسر شدید ترین سزا دے کر عبرت کی مثال بنادیا جاتا تاکہ آئندہ اس طرح کے جرائم کے ارتکاب کا رستہ ہمیشہ کے لئے بند کیا جا سکتا ۔۔۔۔ مگر ہوا یہ کے اونٹ کے منہ میں زیرے جیسی رقم کی وصولی کے معاہدے کی بدولت اس لٹیرے کو نہلا دھلا کے پاک صاف کردیا گیا اور اب یہ حرامخور قومی خزانے سے ہڑپ کی گئی اس رقم کے بڑے حصے سے گلچھرے اڑانے کے لیئے بالکل آزاد ہوجائے گا جیسےقومی خزانہ حکومت اور احتساب عدالت کی ملکیت ہے کہ اس بابت اصول اور قانون کو روند کر جو چاہیں معاف کرتی پھریں اور قانونی سائبان تلے مجرموں سے مفاہمت کے سمجھوتے کئے جاتے رہیں ۔

(جاری ہے)

۔ 
یوں سمجھیئے کہ ان احتساب عدالتوں سے ملی پلی بارگین جیسی ناقابل یقین راحت کے بل پہ اس بدقسمت قوم کی کمائی کی لوٹ مار کا یہ سفرپہلے سے بھی زیادہ اعتماد سے جاری رہے گا -  درحقیقت پلی بارگین کی سہولت بجائے خود ایک سنگین جرم کے ارتکاب کے مترادف ہے کیونکہ اس کے ذریعے لٹیروں کے لئے ایک ایسی شاہراہ مفاہمت مکمل طور پہ کھول دی گئی ہے کہ جس پہ اب  وہ اپنے منصب اور اختیار کے بل پہ آئندہ بھی    قومی کمائی کی لوٹ مار اور غبن کی وارداتوں کا سفر بلا خوف و خطر جاری رکھ سکتے ہیں کیونکہ شارع مفاہمت پہ سزا کے ہر سنگ میل سے سمجھوتے کا موڑ منسلک کردیا گیا ہے- بلا خوف تردید عرض ہے کہ پلی بارگین کے ذریعے اب سرکار اور عدالتی دربار سے قومی خزانے کے خائنوں‌ کو تحفظ کی جو چھتری فراہم کردی گئی ہے مہذب معاشروں میں اس کا تصؤر بھی نہیں کیا جاسکتا اور اس کے ہوتے ہوئے جرم اور سزا کے تصورات ہی مضحکہ خیز ہوگئے ہیں
 شدید افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں اسلام کے نام قائم اس ملک میں ہی شرعی تعلیمات کی بنیاد یعنی ارفع اخلاقی معیارات کی دھجیاں اڑا ڈالنے میںً اب پلی بارگین جیسی شرمناک رعایتوں کے چلتے ، احتساب کے نام پہ بنی عدالت تک شریک جرم ہوگئی ہے اور مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ مجرم کے ساتھ مفاہمت کے اس شرمناک عمل کو ملکی اعلیٰ عدالتیں بھی چپ چاپ دیکھ رہی ہیں اور مہر بہ لب ہیں جبکہ انہی عدالتوں سے چند لاکھ کے مالی جرائم والے معمولی سے مجرم جیل بھیجے جاتے ہیں ۔

۔۔ سو اب یوں کہا جاسکتا ہے کہ جرم اور مجرم کے پیمانے ہی بدل ڈالے گئے ہیں یعنی اب وہی مجرم بدقسمت ہے کہ جس نے ایسے بڑے بڑے مالی جرائم نہیں کئے کہ جنکے ارتکاب پہ اسے پلی بارگین کی چھتری میسر کی جاسکتی تھی اور وہ بھی ایوان عدل کی مضبوط و پائیدارگارنٹیوں کے ساتھ ۔۔۔۔  تو صاحبو ایسے میں کیسا انصاف اورقانون کی عملداری تو گئی تیل لینے ۔۔۔ مگر ایسے گھور اندھیر والی نگری میں بھی میں ہم یہ پختہ یقین رکھتے ہیں ہیں کہ یہاں کی عدالتوں کے اوپر ایک عدالت اور بھی ہے کہ جو عرش کے دن لگے گی اور جہاں عدل کے نام ظلم کرنے والے سبھی زمینی دیوتا اور تقدس مآب منہ کے بل گرادیئے جائیں گے اور وہاں یہ مہان گرو اپنے لئے کسی بھی طرح کی پلی بارگین کی سہولت نہ پا سکیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :