اردو کا نفاز اب مؤثراحتجاج کے بغیر ممکن نہیں

جمعہ 23 جولائی 2021

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

 اردو کے نفاز کی بات اب رفتہ رفتہ محض ایک نعرہ ہی بنتی جارہی ہے کیونکہ اس راہ میں پڑا جھاڑ جھنکاڑ ہٹانے میں کوئی بھی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا ۔۔۔ حالانکہ جب 6 برس قبل 8 ستمبر 2015 کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس جواد ایس خواجہ نے اردو کو سرکاری زبان بنانے اور 3 ماہ میں ہر سطح پہ اس کے نفاز کا فیصلہ سنایا تھا تو لگتا یوں تھا کہ جیسے اس سب سے بڑی عدالت سے فیصلہ سنادیئے جانے کے بعد اب اردو کا نفاز محض چند دنوں یا ہفتوں کی بات ہے مگر کون جانتا تھا کہ جسٹس خواجہ کے جاتے ہی یہ فیصلہ یوں ہوا میں اڑادیا جائے گا اور سب کچھ بدل جائے گا اور آج 6 برس بعد بھی ہم اسی موضوع کو لیئے بیٹھے ہونگے کہ نفاز اردو کب ہوگا اور کیسے ہوگا ۔

۔۔
مجھے کہنے دیجیئے کہ درحقیقت عدلیہ نے جو فیصلہ دیا تھا وہ ہماری اشرافیہ کو تو منظور تھا ہی نہیں مگر وطن عزیز کے اہم قومی اداروں نے بھئی اس کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا  تھا اور  اسی سبب مجھے یوں لگتا ہے ہے کہ لفظ قومی کی تشریح اب از سرنو کرنی پڑے گی کیونکہ قومی کہلانے والے ہمارے مقتدراداروں میں قومی زبان اردو کا دوست کوئی بھی نہیں ۔

(جاری ہے)

۔۔  نہ پارلیمان ، نہ انتظامیہ  اور نہ ہی فوج جو کہ ملک کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور جہاں اردو کا مقام افسران کی سطح پہ ذرا بھی لائق التفات نہیں گردانا جاتا اور جنہوں نے مغربیت کے زیر اثر اپنے دفاتر اور تربیتی اداروں  تک کو انگریزی زدہ رکھا ہوا ہے حتیٰ کہ اکثر نے تو اپنے گھر کا ماحول بھی اردو سے 'پاک' کیا ہوا ہے اور وہاں اردو کی اہمیت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ اسے پریڈ میں چند ہدایات دینے کے لئے استعمال کرلیا جائے جیسے ' پیچھے مڑ ، آگے چل ۔

۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر یہ کہ خود ہماری عدلیہ نے بھی اپنے ہی دیئے اس تاریخی فیصلے کی خلاف ورزی کی ہے اور عدل کے ان ایوانوں میں بھی  لگتا یوں ہے اسے اپنے اوپر نافذ کرنے سے پیٹھ موڑے رکھی ہے حالانکہ یہ فیصلہ بھی انہی کی جانب سے سامنے آیا تھا اور اس خصوصی حوالے سے یہ  چراغ تلے اندھیرا جیسے محاورے کو سمجھنے کی فہم بخوبی عطا کرتا ہے ۔

۔۔آ
لیکن یہاں سوال یہ ابھرتا ہے ہے کہ کیا عدلیہ خود اپنے ہی فیصلوں سے روگردانی کرسکتی ہے  جو کہ وہ نفاز اردو کا اپنا فیصلہ دیئے جانے کے بعد سے مسلسل 6 برس سے کررہی ہے کیونکہ دوسروں کا تو کیا کہیں خود ملک بھر کے عدالتی ایوانوں میں بھی اردو کو تاحال نافذ نہیں کیا گیا ہے اور وہاں بھی ہر ر وز ہر عدالت میں اس اہم آئینی تقاضے کی پامالی عدالتی معمول کا حصہ بنی ہوئی ہے ۔

۔۔ تو پھر کیا ہمیں کچھ نہیں کرنا چاہیئے
اور عدلیہ کے اس دہرے معیار بلکہ آئینی تقاضے کی صریح خلاف ورزی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلینا چاہیئے لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر اس صورتحال کو یونہی نظرانداز کئے رکھا گیا تو نہ صرف آئین کی پامالی کا یہ عمل ہمیشہ یونہی جاری رہے گا بلکہ پھر آئندہ نہ آئین کی کوئی وقعت رہے گی اور نہ ہی عدالتی فیصلوں کی ۔

۔۔۔
اس حوالے سے مجھے قومی زبان تحریک کے اپنے مخلص دوستوں سے بھی یہ عرض کرنا ہے کہ خدارا اب راست اقدام نہ سہی لیکن اس بارے میں احتجاج کے رستے پہ تو آئیں کیونکہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔۔۔  اردو کے یہ جانثار سپاہی اگلے ماہ اسلام آباد میں نفاز اردو کے مطالبے اور عدالتی فیصلے کے حوالے سے ایک اور کانفرنس منعقد کررہے ہیں ۔۔۔ ایک اور یوں کہ وہ اس سے قبل بھی لاہور اور اسلام آباد میں پہلے بھی اسی ضمن میں میں کئی کانفرنسیں منعقد کرچکے ہیں‌ جس کے بارے میں میرا کہنا یہ ہے کہ آپ چاہے بیس پچیس کانفرنسیں اور بھی کرلیں یا دو تین درجن ریلیاں مزید بھی نکال لیں ، ان سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا کیونکہ حکومت ہو یا عدلیہ ۔

۔۔ کسی کے کان پہ ذرا بھی جوں نہیں رینگی اور ایسے ہی چلتا رہا تو یہ مطالبہ ہی غائب غلا ہوکر رہ جائےگا-۔۔۔ لہٰذا اب تو  ضروری ہوگیا ہے کہ اہل فکر و نظر اور محب وطن عاشقان اردو آگے آئیں اور سپریم کورٹ کے سامنے یکجا ہو کر ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کریں تاکہ جس سے عدلیہ کے اس سب سے بڑے ایوان کو نفاز اردو کے لئے دیا گیا اس کا اپنا اہم فیصلہ یاد دلایا جاسکے اور قوم اور حکمرانوں کو بھی بھولا ہوا سبق یاد کرایا جاسکے۔۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :