
اپنائیت کی موت
بدھ 21 دسمبر 2016

سید بدر سعید
(جاری ہے)
یہ محض ایک تصویر کے دو رخ ہیں ۔ کہانی ابھی باقی ہے ۔ ہم اس منظر نامے کی بنیاد پر یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ سردیوں میں لوگ لٹتے رہیں اور انہیں کوئی نہ بچائے ۔ پولیس کا فرض ہے کہ وہ عام شہریوں کو تحفظ فراہم کرے ۔ یہ تحفظ ریاست کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور ریاست ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنے کی پابند ہے ۔ پولیس اسی ریاست کا ایک ادارہ ہے جس کی ذمہ داری اس بنیادی حق کو حقدار تک پہنچانا ہے ۔مجھے البتہ ایک نوحہ لکھنا ہے ۔ یہ نوحہ ہمارے بدلتے کلچراور بکھرتی روایات کا ہے ۔ اگلے روز حافظ شفیق الرحمن صاحب ہی بتا رہے تھے کہ انہوں نے نیا گھر تعمیر کیا تو ان کے بچوں نے وہاں جانے سے انکار کر دیا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اندرون لاہور میں پلنے والے بچوں کو سوسائٹی کلچر کی ویرانی اور بے حسی عجیب لگتی ہے ۔
چند برس ہوتے ہیں ۔ہمارا اپنا ایک مخصوص کلچر تھا جس سے اپنایت کی مہک چھلکتی تھی ۔ محلہ میں کسی کی شادی ہو تو کئی ہمسائیوں کی بیٹھک مہمانوں کے لئے خالی ہو جاتی تھی ۔ بیٹی کی شادی پر دیگ پکانے والا نائی گھر اور گلی کے بچوں کو بزرگ کی طرح حکم دیتا تھا اور مہمانوں سے پہلے کسی کو دیگ کے قریب بھی نہ پھٹکنے دیتا تھا ۔ تب محلہ کا ہر بچہ اپنا بچہ اور ہر بیٹی اپنی عزت ہوتی تھی ۔ ماسٹر سبق یاد نہ ہونے پر بچے کی پٹائی کرتے تو باپ خوش ہوتا تھا ۔کوئی فوت ہو تو اہل خانہ سے زیادہ محلہ دارکفن دفن اور کھانے کا انتظام کرتے نظر آتے تھے ۔ بدمعاش تک محلہ کی عزت کی خاطر لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتے تھے ۔ لوگوں کو علم ہوتا تھا کہ فلاں محلہ میں فلاں بدمعاش رہتا ہے لہذا اس محلہ سے نظریں نیچی کر کے گزرنا ہے ۔ قصہ مختصر اپنایت ، خلوص اور احساس ذمہ داری اس بلندی پر تھا کہ بدمعاش تک اپنے محلہ کی عزت ، جان اور مال کے محافظ سمجھے جاتے تھے اور بزرگوں کا فیصلہ حرف آخر سمجھا جاتا تھا ۔ اب حالات یہ ہیں کہ ہمسائے کو شادی میں بلایا تک نہیں جاتا ۔ خوشی غمی کی تقریبات اب نجی ہال میں ہوتی ہیں اور محلہ میں کسی کو خبر نہیں ہوتی ۔ساتھ والے گھر میں جنازہ پڑا ہو تب بھی لوگ خاموشی سے دفتر جاتے نظر آتے ہیں ۔ ہمارے اصل کلچر کو تو ترقی کے نام پر پھیلنے والی بے حسی کھا گئی ہے ۔
بزرگ بتاتے ہیں کہ انگریز کے زمانے میں ایک سپاہی محض ڈنڈہ تھامے جاتا تھا اوردرجن بھر لوگوں کو گرفتار کر کے ہانکتا ہوا تھانے لے آتا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ اب سپاہی اتنا طاقتور کیوں نہیں ہے ؟ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنی روایات ، اپنا کلچر اور اپنے اقتدار سے دور ہو گئے ہیں ۔ جب ایک سپاہی ڈاکوؤں کے پورے قبیلہ کو ہانکتا ہوا تھانے لے آتا تھا تب لوگ سپاہی کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے ۔ اس کی ایک آواز پر پورا گاؤں ڈاکو کا تعاقب کرتا تھا ۔ کہیں واردات ہوتی تو گاؤں کے بزرگ لاٹھی بردار نوجوانوں کی ٹولیاں بنا کر رات بھر گشت پر لگا دیتے تھے ۔ یہ نوجوان کسی بھی مشکوک شخص کو دیکھتے ہی پولیس کو خبر کرتے تھے اور پولیس کے آنے تک اس مشکوک شخص کو روکے رکھتے تھے ۔ تب تھانہ اور سپاہی اپنا سمجھا جاتا تھا ۔نمبردار اور کونسلر علاقہ میں ہونے والی مشکوک حرکتوں کی اطلاع پولیس کو دینا اپنا فرض سمجھتے تھے ۔ لوگ اپنی ہی نہیں اپنے علاقے کی حفاظت کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوتے تھے ۔یہ وہ دور تھا جب ہر شہری ”پولیس“ تھا ۔
اب حالات یہ ہیں کہ ہمسائے کو لٹتا دیکھ کر ہم نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ کہیں کسی مشکوک شخص کو دیکھیں تو اس کی نشاندہی کی بجائے خاموشی سے گزر جاتے ہیں ۔ مجرم کو پہچاننے کے باوجود گواہی دینے پر آمادہ نہیں ہوتے ۔ ہم دوسروں کا گھر جلتا دیکھ کر سوچتے ہیں کہ ہماری چھت محفوظ رہے گی ۔ ہم اپنی وجہ سے غیر محفوظ ہوئے جاتے ہیں اور ستم یہ ہے کہ خود ہمیں بھی اس کا احساس نہیں ۔ یورپ تک میں اگر کوئی جرم ہوتا دیکھے تو فورا پولیس کو آگاہ کرتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جرائم یا مجرم کی پردہ پوشی بھی جرم ہے ۔ہمارے یہاں البتہ قوم ابھی اتنی مہذب نہیں ہوسکی ۔ہماری پارلیمنٹ کے پاس بھی پولیس کے لئے بھاری فنڈز کی منظوری کا کوئی بل نہیں ہے ۔ ان حالات میں یہ ممکن نہیں کہ ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ آبادی کے حامل شہر لاہور میں چند ہزار پولیس اہلکار ہر شخص پر نظر رکھ سکیں ۔ یہ نظر ہمیں خودرکھنی ہے ۔ سچ یہ ہے کہ مصنوعی زندگی ، بے حسی اور سوسائٹی کلچر کے نام پر پھیلنے والی اجنبیت کی دبیز دھند اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ہمیں محفوظ رہنا ہے تو پہلے کی سی رواداری ، اور محبتوں کو تلاش کرنا ہو گا ۔ احساس ذمہ داری ہی کھو جائے تو کچھ نہیں بچتا ۔یہ تو ممکن نہیں کہ ہر شخص کے ساتھ دو پولیس اہلکار نتھی ہوں ، البتہ مقامی سطح پر اب بھی” پولیس عوام ساتھ ساتھ“ کے نظریہ کے تحت ایک نیٹ ورک ضرور بن سکتا ہے ۔ پہلے کی طرح معززین کی نگرانی میں محلہ میں چوکیداری کا نظام قائم کر کے اسے علاقہ کے تھانے سے منسلک کیا جا سکتا ہے ۔سچ یہ ہے کہ کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود پنے آپ کو لوٹنے پر تلے ہیں ،ہمارے کلچر میں موجود اپنائیت مر رہی ہے ۔ ممکن ہو تو اس اپنائیت کو بچا لیں ورنہ ہر شخص لٹیرا ہو گا اورگھر کسی نہ کا بچے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید بدر سعید کے کالمز
-
پنجاب میں منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاون!
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
کورونا لاک ڈاؤن کے بعد کی دُنیا
جمعہ 30 جولائی 2021
-
ڈیجیٹل میڈیا۔۔۔۔ بےروزگاری میں پیسے کمانے کا سب سے بڑا میڈیا!
جمعرات 29 جولائی 2021
-
انڈرورلڈ کے کارندے
بدھ 28 جولائی 2021
-
آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور مائیکرو ڈرون بم ۔۔۔۔ انسان کی ترقی یا موت ؟؟
ہفتہ 13 فروری 2021
-
سیاسی دباؤ سے آزاد پولیس !!
اتوار 5 اگست 2018
-
پولیس کے تبادلے اپنی جگہ مگر دھاندلی کے اصل ذمہ دار کوئی اور!!
جمعہ 29 جون 2018
-
پولیس اصلاحات ۔ نئی وردی بدتمیز اہلکاروں کے لئے خطرہ بن گئی
اتوار 9 اپریل 2017
سید بدر سعید کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.