سو گواران مہاجر

جمعہ 22 فروری 2019

Syed Muhammad Yousuf

سید محمد یوسف

یہ تو طے ہے کہ پاکستان ہماری جان ہماری مان، ہماری پہچان، جِس سے وفا کے بغیر نامکمل ہمارا ایمان۔میرے موضوع کے مطابق میں آج وطن عزیز میں بسنے والے باالخصوص سندھ کے شہری علاقوں کے مظلوم و محکوم ستر سالوں سے اپنے جائز بنیادی انسانی حقوق سے محروم یو پی، سی پی، بہار، آگرہ، کلکتہ، گجرات، جونا گڑھ، لکھنو، حیدرآباد دکن، اور برصغیر کے دیگر حصوں سے ہجرت کرنے والے بانیانِ پاکستان کی اولادوں (مہاجروں) کی کسمپرسی اور پچھلے ستر سالوں سے جاری متعصبانہ رویہ کی اپنی محدود علمی بساط کے مطابق داستان آپکی نظر کر رہا ہوں۔

ہر جاندار میں فطرت ہے کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے عمل غلط ہوگا تو ردعمل بھی غلط ہی ہوگا اور اگر عمل صحیح ہوگا تو ردعمل بھی صحیح آئے گا
چار دہائیوں سے جِس طریقہ سے بانیانِ وطن کے اولادوں کے ساتھ ظلم وستم کا دور کا آغاز ہوا وہ آج تک اپنے انجام کو نہ پہنچ سکا جو کہ اب ایک تاریخ کا سیاہ باب بنتا جارہا ہے ۔

(جاری ہے)

سابق وزیر اعلیٰ سندھ اور اْس وقت کے حاکم وقت سچا پاکستانی اور پرہیز گار محترم جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے کزن سردار ممتاز علی بھٹو کی کابینہ نے 10 سال کیلئے سندھ میں کوٹہ سسٹم نافظ کردیا جبکہ غیر آئینی طریقہ سے تسلسل کے ساتھ آج بھی نافظ العمل ہے ۔

مہاجر قوم زبان اور نسلی تعصب کی بنیاد پر مختلف ہتک آمیزالقابات سے نوازے جانے لگے کالجوں یونیورسٹیوں میں مہاجر طالب علموں کا راستہ جس انداز میں روکا گیا وہ ایک افسوسناک پہلو ہے۔روشن پہلو یہ ہے کہ ہم وہی مہاجر بانیانِ وطن کی اولادیں ہیں کہ جنہوں نے وطن عزیز کی آبیاری کیلئے جہاں اپنے خون کا حِراج دیا وہیں عرض پاکستان کیلئے معاشی، سیاسی، علمی، سائنسی،عسکری، ادبی خدمات بھی انجام دیئے 
قربانی کی لازوال مثال یوں لے لیں کہ آج بھی جنیوا کیمپ بنگلا دیش میں لاکھوں بانیانِ وطن کی اولادیں صرف اور صرف پاکستان سے لازوال محبت کی سزا بھگت رہے ہیں جو کہ ملک و ملت سے وفاداری کا روشن منار ہیں ۔

کھانوں سے لیکر لباس تک شیریں اندازِ گفتگو سے لیکر مہمان نوازی تک تمیز اور تمدن مہاجر تہذیب کا شاندار ماضی اور حال ہے جو کہ اب کہیں مدہم سی ہوتی جارہی ہے۔زندگی کی تیز رفتاری حائل ہورہی ہے یا پھر کسی سازش کے تحت تہذیب و تمدن ہم سے چھینا جا رہا ہے یہ بہت ہی غور طلب امر ہے ہمیں سوچ و فکر کی دعوت دیرہا ہے یہاں کچھ چیدہ چیدہ قابلِ ذکر نام تحریر کر رہا ہوں تاکہ بات مزید آگے بڑھایا جا سکے ۔

ویسے تو قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں صف اول کے کردار ادا کرنے والے سینکڑوں اہم ترین مہاجر سپوت(اردو اسپیکنگ) رہنماوٴں کے نام اور انکی خدمات سر فہرست ہے اِن کے علاوہ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی مجموعی صورتحال کو اصل شکل میں لانے والے اور مختلف ملکی شعبہ جات میں قابل قدر، قابل رشک خدمات انجام دینے والوں کی بھی طویل فہرست موجود ہے جنہوں نے ابھرتے ہوئے پاکستان کو اپنی دولت اور اپنی تمام تر جمع پونجی سے معاشی بحران سے نکالا پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن جیسے ادارے ملک کیلئے وقف کر دیئے۔

آہ! کیا لوگ تھے وہ بھی۔سب سے پہلے اْن اعلٰی قابلِ ذکر معروف تاریخی و موجودہ شخصیات کے نام تحریر کروں کہ پاکستان کے ازل سے آج تک وطن کیلئے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دیتے آ رہے ہیں ۔
سیاسی شعبہ! 
خان لیاقت علی خان،سرسید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر، بھوپال کی شہزادی عابدہ سلطان، معین الدین حیدر، حبیب ابراہیم، حیدر عابدی، اسماعیل چندریگر، مبشر حسن، ثروت احسان، محسِن خان مالک، قدیرالدین، علی عباس جلال پوری، اور بھی کئی نامور تاریخی شخصیات۔

بیوروکریسی! 
اکرام اللہ، رضوان احمد مرحوم، صاحبزادہ یعقوب، شہریار خان (راجہ بھوپال)، آغاہلالی، سید مراد احمد سمیت دیگر نامور اعلیٰ شخصیات۔
صحافت! 
احفاظ الرحمان، اظہر عباس، وسعت اللہ، مجاہد بریلوی، اور کم سے کم بھی وسیم بادامی اور دیگر نامور معروف تاریخی صحافی۔
سائنسدان اور ٹیکنالوجی! 
عبدالقدیر خان (ایٹمی سائنسدان)، حمید نیئر، احمد محی الدین، فہیم حسین، پرویز ہود، کم ازکم عشرت حسین جیسے دیگر نامور تاریخی اعلٰی سائنسدان و ٹیکنالوجسٹ۔

 
افواجِ پاکستان! 
جنرل شمیم عالم، رحیم الدین، جنرل پرویز، میجر جنرل اطہر عباس، جنرل اسلم بیگ، میجر جنرل شاہد حامد، ایڈمرل عارف اللہْ حسینی، جنرل شاہد عزیز، میر مصحف جعفری، اور دیگر معروف تاریخی شخصیات۔
کھیل! 
جاوید میاں داد، محمد سمیع، صلاح الدین، محسن حسن خان،موجودہ کپتان پاکستان کرکٹ ٹیم سرفراز احمد سمیت سینکڑوں مشہور و معروف شخصیات 
علم و ادب! 
جون ایلیا، جوش ملیح آبادی، رئیس امروہی، قاسم پیرزادہ سے لیکر دیگر مشہور و معروف تاریخی علمی ادبی اور دیگر شعبوں میں خدمات انجام دینے والے لاتعداد نام اور بھی ہیں جو مجھے یاد تھے میں نے تحریر کردیئے جنہوں نے اِس عرض وطن کیلئے اپنے بساط سے زیادہ خدمات انجام دیئے افسوس کہ آج اْنکی مظلوم اولادوں کی آواز کوئی نہیں سْن رہا ہے۔

پھر کیا وجہ ہے کہ سندھ کے وڈیروں اور جاگیرداروں کی مشترکہ حکمت عملی کے نتیجے میں حالیہ مردم شماری میں سندھ کے شہری آبادی کے ڈیڑھ کروڑ سے زائد نفوس کو لاپتہ کر دیا گیا تاکہ وسائل کی تقسیم میں ڈاکہ ڈال سکیں اور ایوان میں نمائندگی اتنی ہو کہ مہاجر نمائندگی زندگی بھر صرف اپوزیشن میں رہے اور وڈیرے جاگیردار ہمیشہ ہمیشہ اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں اور ایسے ہی غریبوں لاچاروں متوسط طبقے کے عوام کا استحصال ہوتا رہے اور طاقت کے بل بوتے پر مہاجر عوام کو اپنی جانب راغب کر کے اپنا غلام بنایا جا سکے ظاہر ہے وہ خود تو کوئی کام کرنا نہیں چاہتے اور مہاجر نمائندوں کی راہ میں رکاوٹ حائل کرکے مہاجر عوام کے اِرد گرد یہ تاثر قائم کیا جاسکے کہ مہاجر نمائندے کام کرنا نہیں چاہتے 
حالانکہ جب 2005 میں مکمل اختیارات کے ساتھ بلدیاتی حکومت کا قیام ممکن ہوا تو کراچی، حیدرآباد کی ترقی کو دنیا نے مانا اور یہ سب مہاجر نمائندوں نے کر کے دکھایا۔

 گزشتہ دس سالوں سے صورتحال یہ ہے کہ سندھ کے دارلامرا کے گدے نشین اٹھارویں آئینی ترمیم کے آڑ میں اختیارات نچلی سطح پر لانے کو تیار نہیں ہیں بلدیاتی نظام تو موجود ہے لیکن سندھ کے دارلامرا کے مستقل گدے نشین وڈیروں، اگیرداروں کے رحم و کرم پرسندھ کے گدے نشین بلدیاتی اداروں کو نہ تو مضبوط کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی اختیارات دینا چاہتی ہے جبکہ آئین میں واضح طور پر لکھا ہو اہے کہ بلدیاتی نظام کو مضبوط کرنا ہے اور مکمل اختیارات دینے ہیں شہر کے نکاسی آب کی صورتحال تباہ ہوچکی ہے پانی جیسی بنیادی ضرورت ناپید ہوچکی ہے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ختم ہوچکا ہے روڈ انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے سرکاری اسکولوں کی صورتحال منہ چڑا رہی ہیں ہسپتالوں میں ادویات ناپید اور سہولیات کا فقدان ہے بڑھتی آبادی کے پیش نظر کسی سرکاری حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی انتہائی نامساعد حالات کے باوجود مہاجر نمائندے اپنے عوام کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرنے کیلئے کوشاں ہیں ماوراء عدالت قتل قید وبند کی صعوبتیں آئے روز غیر آئینی غیر قانونی گرفتاریوں کا سلسلہ مہاجر نمائندہ جماعت ایم کیو ایم پاکستان کے دفاتروں اور رہنماوٴں کو سیکورٹی نہ دینا اس تعصب کی وجہ کر حال ہی میں علی رضا عابدی اور شکیل انصاری دہشتگردوں کا نشانہ بنے یہ اگر مہاجر دشمنی نہیں تو اور کیا ہے تعصب پرستی نہیں تو اور کیا ہے؟ 
لیکن سلام ہو مہاجر قوم کے ماوٴں، بہنوں، بزرگوں، اور نوجوانوں پر کہ یہ قوم آج بھی ثابت قدم ہیں اپنے جائز آئینی بنیادی انسانی حقوق کیلئے متواتر مہاجر نمائندہ جماعت ایم کیو ایم پاکستان کے پلیٹ فارم سے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں شہری سندھ کے مہاجر عوام اب سوگوار ہیں اور جنوبی سندھ صوبہ کا مطالبہ کر رہے ہیں جو کہ آئینی طور پر انکا جائز حق ہے اْن کا ماننا ہے کہ مزید وڈیروں اور استحصالی ٹولے کے ساتھ گزارا ممکن نہیں تین نسلیں ہماری گزر چکی اب ہم مزید ظلم و ستم سہنے کے قابل نہیں رہے اور مقتدر حلقوں سے اپیل کرتے ہیں کہ خدار ہم پر رحم کیا جائے یہ ملک جتنا سب کا ہے اْ تنا ہمارا بھی ہے بس ہمارے جائز مطالبات پر غور کیا جائے ریاست تو ماں ہوتی ہے ماں اولاد کیلئے کچھ بھی کر گزرتی ہے خداراہ سندھ میں انتظامی بنیاد پر یا جنوبی سندھ اب ہمیں ہمارا صوبہ دیا جائے یا پھر ناانصافی اور نفرت کو ختم کرکے برابری کی بنیاد پر معاشرہ تشکیل دیا جائے تاکہ ہم احساسِ محرومی سے نکل کر ملک کے تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :