
- مرکزی صفحہ
- اردو کالم
- کالم نگار
- سید سردار احمد پیرزادہ
- لیاقت علی خان اور ایوب خان کی سیاست پر اصلی تحقیق کی ضرورت
لیاقت علی خان اور ایوب خان کی سیاست پر اصلی تحقیق کی ضرورت
جمعرات 12 دسمبر 2019

سید سردار احمد پیرزادہ
(جاری ہے)
اگر قائداعظم کی زندگی میں آئین بنتا تو وہ قائداعظم کے روڈمیپ کے تحت مکمل جمہوری ہوتا۔
جمہوری ہونے کے نتیجے میں بنگالی ووٹر اکثریت میں ہوتے اور پاکستان کے وزیراعظم بنگالی بھی ہوتے۔ جمہوری روےئے سے اسی مسلسل دشمنی کا نتیجہ ہمیں 1971ء میں ملا۔ لیاقت علی خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے تعلقات میں تناؤ کی اصل حقیقت کو جاننے کے لئے وہ یادداشتیں پڑھنی چاہئیں جو اُن دنوں محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی ڈائری میں درج کیں۔ بعد ازاں یہی بچی کچھی کچھ تحریریں 1987ء میں قائداعظم اکیڈمی کے تحت ”My Brother“ کے نام سے مخصوص پسند کے مطابق ایڈٹ کرکے منظرِعام پر لائی گئیں۔ اصل حقیقت جاننے کے لئے اصل تحریروں تک پہنچنا ضروری ہے۔ مثلاً محترمہ فاطمہ جناح نے ”میرا بھائی“ میں بتایا کہ ”لیاقت علی خان قائداعظم کو دیکھنے زیارت آئے۔ میں قائداعظم کے اصرار پر انہیں شدید علالت میں اکیلا چھوڑ کر مہمان نوازی کے لئے وزیراعظم لیاقت علی خان کے ساتھ کھانے کے کمرے میں گئی۔ میری پریشانی کے باوجود کھانے کی میز پر لیاقت علی خان قائداعظم کی صحت کے حوالے سے متفکر نظر نہ آئے بلکہ بہت خوشگوار موڈ میں تھے اور لطیفے سناتے رہے“۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ”اگست 1948ء کو پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر قائداعظم نے اپنا خصوصی پیغام گورنرجنرل کی حیثیت سے تحریر کروایا لیکن غلام محمد نے محترمہ فاطمہ جناح کو بتایا کہ قائداعظم کے پیغام کی جگہ وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنا پیغام بڑے پیمانے پر مشتہر کیا ہے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان کا پیغام اشتہاروں کی صورت میں ہوائی جہاز کے ذریعے بڑے شہروں پر گرایا بھی گیا جبکہ قائداعظم کے پیغام کو نظر انداز کردیا گیا“۔ لیاقت علی خان قائداعظم کو دیکھنے جب زیارت گئے تو اس دورے میں اُس وقت کی بیوروکریسی کے سربراہ چوہدری محمد علی بھی اُن کے ساتھ تھے۔ قراردادِ مقاصد کے مسودہ نویس چوہدری محمد علی نظریاتی طور پر مولانا مودودی کے قریب تھے۔ پاکستان کی اصل تاریخ پڑھنے سے احساس ہوتا ہے کہ چوہدری محمد علی ابتداء ہی میں لیاقت علی خان کے بہت نزدیک ہوگئے تھے جبکہ غلام محمد محترمہ فاطمہ جناح کے قریب تھے۔ شاید اسی لئے غلام محمد کو مختلف پراپیگنڈوں کے ذریعے بدنام کیا گیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کے آخری دنوں کے معالج کرنل ڈاکٹر الہٰی بخش کی کتاب بھی محققین کو بہت کچھ دے سکتی ہے۔ اس کتاب کا مسودہ وزیراعظم لیاقت علی خان کی زندگی میں اشاعت کے لئے منظور نہ کیا گیا۔ انہی دنوں فوجی افسر کرنل محمد ایوب خان درپردہ پاکستان کی سیاست میں اپنا راستہ بنا رہے تھے۔ محمد ایوب خان مبینہ بددیانتی اور 1947ء میں پاکستان کے لئے ناقص کارکردگی دکھانے کے باعث قائداعظم کے لئے ناپسندیدہ شخصیت بن چکے تھے۔ کچھ محققین کے مطابق قائداعظم نے محمد ایوب خان کو ملازمت سے برخواست کرنے کا بھی کہا تھا مگر پہلے اُن کا وزیرستان تبادلہ کردیا گیا پھر انہیں مشرقی پاکستان جنرل آفیسر کمانڈنگ بناکر بھیجا گیا۔ جب قائداعظم مشرقی پاکستان کے دورے پر ڈھاکہ گئے تو محمد ایوب خان جی او سی کی حیثیت سے ڈھاکہ اےئرپورٹ پر موجود تھے۔ قائداعظم انہیں دیکھ کر حیران ہوئے اور پوچھنے لگے کہ ”کیا یہ ابھی تک فوج میں ہیں؟“ وزیراعظم لیاقت علی خان 16 اکتوبر 1951ء کو قتل ہوئے جبکہ ٹھیک 9ماہ پہلے یعنی 16 جنوری 1951ء کو انہوں نے ہی ایوب خان کو آرمی کمانڈر انچیف بنایا۔ جنرل محمد ایوب خان نے کمانڈر انچیف بننے کے فوراً بعد فروری 1951ء میں میجر جنرل اکبر خان کو راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کیا۔ یہ وہی میجرجنرل اکبر خان ہیں جو قائداعظم کی خواہش پر 1948ء میں کشمیر کی جنگ کے انچارج تھے۔ اُس وقت وہ بریگیڈےئر اکبر خان تھے جو ایوب خان سے سینئر بھی تھے۔ قائداعظم کے لئے ناپسندیدہ شخصیت کو چار برسوں میں کرنل سے جنرل کیوں بنایا گیا؟ تاریخ کو حقیقت میں تحریر کرنے والا کوئی بھی مئورخ اگر اُن دنوں کے واقعات اور حالات کی کڑی ملاتا جائے تو سیاست میں دو بڑے نام ابھریں گے جن میں ایک لیاقت علی خان جبکہ دوسرا فوجی افسر محمد ایوب خان کا ہوگا۔ لہٰذا موجودہ پاکستان کو ”قائداعظم کا پاکستان“ بنانے کے لئے لیاقت علی خان اور ایوب خان کی سیاست پر اصلی تحقیق ضروری ہے۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید سردار احمد پیرزادہ کے کالمز
-
آزاد خارجہ پالیسی کی خواہش
ہفتہ 19 فروری 2022
-
نیشنل سکلز یونیورسٹی میں یوم تعلیم پر سیمینار
منگل 8 فروری 2022
-
اُن کے گریبان اور عوام کے ہاتھ
بدھ 2 فروری 2022
-
وفاقی محتسب کے ادارے کو 39ویں سالگرہ مبارک
جمعہ 28 جنوری 2022
-
جماعت اسلامی کا کراچی میں دھرنا۔ کیوں؟
پیر 24 جنوری 2022
-
شارک مچھلی کے حملے اور سانحہ مری کے بعد فرق
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
نئے سال کے لیے یہ دعا کیسی ہے؟
بدھ 12 جنوری 2022
-
قاضی حسین احمد آئے، دیکھا اور لوگوں کے دل فتح کیے
ہفتہ 8 جنوری 2022
سید سردار احمد پیرزادہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.