کیا پی ایم سی سے مراد پولیٹیکل میڈیکل کمیشن ہے؟

اتوار 22 نومبر 2020

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم اور ڈاکٹروں کے معاملات کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پی ایم ڈی سی کو تحلیل کرکے پی ایم سی کے نام سے ایک نیا ادارہ قائم کیا گیا ہے۔ پی ایم ڈی سی سے پی ایم سی بنانا ایک تبدیلی تھی لیکن اس تبدیلی کے آن گراؤنڈ کیا اثرات ممکن ہیں ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے پہلے پی ایم سی کے انتظامات کو چلانے کے لیے جن 9ممبران کا اعلان کیا گیا ہے ان میں 2بلحاظ عہدہ سرجن جنرل آف دی آرمڈ فورسز میڈیکل سروس اور سیکرٹری آف دی ڈویژن ہیں۔

باقی 7ممبران انفرادی طور پر نامزد کیے گئے ہیں۔ ان میں ایک مائیکروفائنانس فاؤنڈیشن کی سربراہ روشانِ ظفر، ایک لاء فرم کے محمد علی رضا، ایک آڈٹ ٹیکس اور دیگر ایڈوائزری سروسز مہیا کرنے والی فرم کے پارٹنر طارق احمد خان، آغا خان یونیورسٹی کی ڈاکٹر رومینہ حسن، شوکت خانم میموریل کینسر ہاسپٹل کے ڈاکٹر آصف لویا، حمید لطیف ہاسپٹل لاہور کے ڈاکٹر ارشد تقی اور اسلام آباد کے ایک ایلیٹ ڈینٹل کلینک کے ڈاکٹر انیس الرحمان شامل ہیں۔

(جاری ہے)

مندرجہ بالا نامزد ساتوں ناموں کا جائزہ لینے کے بعد دو باتیں ذہن میں آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ ان میں سے تین ممبران ایسے ہیں جن کی خدمات کا عملی تجربہ میڈیکل فیلڈ سے نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ اِن ساتوں نامزد ممبران کا تعلق ایلیٹ کلاس سے ہے یا ان میں سے کچھ وی وی آئی پی شخصیات کے تعلق دار ہیں۔ ایلیٹ کلاس اور بڑے لوگوں سے رشتے داری ہونا ہرگز بری بات نہیں ہے لیکن اس کا عمومی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے افراد کا لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کمیونٹی سے انٹرایکشن نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر یہ اکثر زمینی حقائق سے ناواقف ہوتے ہیں۔

اپنے اس گیپ کو پورا کرنے کے لیے یہ ایلیٹ کلاس عملی معلومات محض گوگل سے ہی حاصل کرتی ہے اور یہاں کے پسماندہ عملی مسائل کو ترقی یافتہ مغرب کی عینک سے دیکھتی ہے۔ اس طرح ایسے افراد کا ڈائریکٹ تعلق اپنے شعبے کے عام افراد سے نہیں ہوتا جو تعداد کے حساب سے بہت اکثریت میں ہوتے ہیں اور اس شعبے کے اصل سٹیک ہولڈرز ہوتے ہیں۔ زمینی حقائق اور عام مسائل سے دور رہنے والے یہ ایلیٹ اور وی وی آئی پی جب اپنے پرآسائش اور جدید کمروں کی بالکونیوں سے کھڑے ہوکر نیچے زمین پر رُلتے انسانوں کو دیکھتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ اگر انہیں روٹی نہیں ملتی تو یہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے؟ پاکستان میں ڈاکٹروں کی زیادہ تر تعداد ایلیٹ اور وی وی آئی پی کلاس کی بجائے مڈل کلاس سے ہے۔

پی ایم سی کے ممبران کی تشکیل کو ڈسکس کرنے کے بعد اب اس کی پالیسیوں کے چند اہم پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔ پہلا اہم ایشو یہ ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد تعلیمی شعبہ صوبائی معاملہ ہے لیکن پی ایم سی جوکہ ایک وفاقی ادارہ ہے پورے ملک کے میڈیکل کا لجز میں داخلے اور نصاب وغیرہ کا انتظام سنبھال چکا ہے۔ اس کے لیے پی ایم سی نے پورے ملک میں میڈیکل کالجز کے داخلے کے لیے MDCAT کے امتحان کا پرچہ ایک ہی رکھا ہے جبکہ ہر صوبے میں ایف ایس سی کا سلیبس مختلف ہے جس کی بنیاد پر میڈیکل کالج میں داخلے کا امتحان لیا جاتا ہے۔

اس طرح پسماندہ علاقوں بلوچستان، کے پی کے اور اندرون سندھ کے دور افتادہ علاقوں کے طالبعلم ترقی یافتہ علاقوں کے طالبعلموں کے مقابلے میں کیا اپنی بہتر کارکردگی ظاہر کرسکیں گے؟ خواہ امتحانی پرچہ کتنا آسان اور نصاب کے اندر سے ہی کیوں نہ ہو لیکن تدریس اور عملی کلاسوں کے معیار میں برابری کیسے ہوگی؟ جب تک پورے ملک میں ایف ایس سی کے سلیبس، تدریس اور عملی کلاسوں کا ایک معیار حاصل نہیں کرلیا جاتا کیا اس وقت تک ہر صوبے کے طالبعلم سے اپنے سلیبس اور تدریسی تجربے کے مطابق داخلے کا امتحان حسب سابق نہیں لینا چاہئے؟ ایک دلچسپ نکتہ یہ بھی ہے کہ ملک کے ہرمیڈیکل کالج کا میرٹ اور فیس کی مالیت علیحدہ ہوگی۔

یعنی پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی نظر میرٹ کی بجائے امیدواروں کی جیب پربھی ہوسکتی ہے۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجز میں ضروری مضامین کے شعبوں کی تعداد اور فیکلٹی کی تعلیمی قابلیت پربھی کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ کیا پی ایم سی کے ذریعے پرائیویٹ کالجز کے مالکان کو مالی طور پر نوازنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے؟ پی ایم سی کے حوالے سے ایک اور اہم پہلو یہ کہ نئے قوانین کے تحت بیرون ملک میڈیکل تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلم دوسال کے بعد اپنی مائیگریشن پاکستان کے کسی میڈیکل کالج میں کروا سکیں گے۔

تجزیہ ہے کہ عمومی طور پر یہ مائیگریشن امریکہ اور مغربی ممالک سے نہیں ہوگی۔ اس لیے یہاں بھی ایک اہم مسئلے پر غور نہیں کیا گیا۔ وہ یہ کہ ہمارے طالبعلم جب بعض غیرانگریزی سپیکنگ ممالک میں میڈیکل کی تعلیم کے لیے جاتے ہیں تو ان پر وہاں کے پروفیسرز اتنی توجہ نہیں دیتے۔ اس طرح ان طالبعلموں کی میڈیکل تعلیم غیرمعیاری اور تجربہ ناقص ہوسکتا ہے۔

شاید اُن ملکوں میں ترجیح فیس کی صورت میں حاصل ہونے والا قیمتی زرمبادلہ ہو۔ اس سلسلے میں تجویز ہے کہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلموں کی مائیگریشن یا تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس آنے کی صورت میں ایکریڈیشن وغیرہ کی بجائے ایک نیشنل سٹینڈرڈ امتحان کو پاس کرنا ضروری قرار دیا جائے۔ پی ایم سی کے قیام سے متعلق ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے مالکان نے امریکہ میں مقیم ڈاکٹر نوشیروان خان برکی کے ذریعے پی ایم سی جیسے متنازع ادارے کو منظور کروایا۔

ڈاکٹر نوشیروان خان برکی وزیراعظم عمران خان کے قریبی عزیز اور گہرے دوست ہیں۔ یہاں دیگر معاملات کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر نوشیروان خان برکی اِس وقت 80 برس سے زائد عمر کے ہوچکے ہیں اور وہ مبینہ طور پر ڈیمنشیا کے مریض بھی ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ ملک میں میڈیکل کے شعبے کو کنٹرول کرنے والے اہم اور حساس ادارے کا کنٹرول سوداگروں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔

ملک میں میڈیکل کے شعبے اور ڈاکٹروں کی بہتری کے لیے دن رات کام کرنے والے پی ایم اے پنجاب کے صدر ڈاکٹر غلام شبیر کہتے ہیں کہ ”پی ایم سی کو اپنی پالیسیاں بناتے ہوئے میڈیکل کے اصل سٹیک ہولڈرز سے بھی مشورہ کرنا چاہئے“۔ آخر میں یہ بات بھی بہت توجہ طلب ہے کہ پی ایم سی کے ممبران منتخب ہونے کی بجائے اگر نامزد ہوں گے تو ہرحکومت اپنے پسندیدہ ممبران نامزد کرے گی۔ ہمارے معاشرتی مزاج کے مطابق نئے آنے والے ممبران پرانے ممبران کی پالیسیوں کو خراب کہہ کر ریجیکٹ کردیں گے۔ اس طرح پی ایم سی ایک سیاسی اکھاڑہ بن جائے گا اور یہ پیشہ ورانہ ادارہ کبھی پی ٹی آئی کا ہوگا، کبھی پی پی پی کااور کبھی ن لیگ کا ادارہ بنے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :