
دو کالمی خبر
اتوار 8 مارچ 2015

سید شاہد عباس
(جاری ہے)
تھوڑی سی جو پی لی ہے
ان دونوں موضوعات پہ قارئین یقینا حیران ہوں گے کہ میرے کالم کا عنوان تو اس بحث سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتا۔ سیاست و کھیل اس لیے موضوع بحث بن گئے کہ پاکستانی قوم ان عام موضوعات میں الجھ کر ایسی خبروں کو نظر انداز کر جاتی ہے جو قوموں کی تاریخ بدل دیتی ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ سیاست میں کرپشن کے گند اور کھیل میں نا اہلی کے ریکارڈ ز کی وجہ سے اس ملک کی قسمت بدلنے والی خبریں پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔ ایسے پس منظر میں چلے جانے والے حقائق شاید بھولی عوام کے لیے معنی بھی نہیں رکھتے۔ لیکن شاید وہ یہ بھی نہیں جاننا چاہ رہے کہ ان کے ٹیکسوں کا پیسہ اس ملک کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے بجائے کہاں خرچ ہو رہا ہے۔
جو لوگ اخبارات کا مطالعہ باریک بینی و عرق ریزی سے کرتے ہیں ان کی نظروں سے شاید ایک خبر گزری ہو گی جس میں ایک سابقہ سرکاری ملازم کی بعد از ریٹائرمنٹ مراعات کا تذکرہ تھا۔ در اصل یہ ایک رپورٹ تھی جو ایوان بالا میں پیش کی گئی تھی۔ "یہ ایک دوکالمی خبر تھی" شاید صرف اخبارات کا پیٹ بھرنے کے لیے یا پھر صرف خانہ پری کے لیے یہ خبراخبارات کی زینت بنی ورنہ اگر عوام کی آگاہی کے لیے ہوتی تو واضح اشاعت پاتی۔ مختصراً ان شخصیت کو بعد از ریٹائرمنٹ ان کی تنخواہ کا 85فیصد بطور پنشن مل رہا ہے۔ صرف یہی شخصیت نہیں بلکہ 1985 کے بعد اسی عہدے سے سبکدوش ہونے والی کم و بیش بارہ شخصیات یہی مراعات لے رہی ہیں۔ یہ عہدہ اعلیٰ عدلیہ کا اعلیٰ ترین عہدہ ہے۔ دو ملازمین پنشن کے علاوہ ہیں جن کے اخراجات حکومت وقت کے ذمے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہیں تین ہزار ٹیلی فون کالز(لوکل) مفت استعمال کرنے کا حق ہے۔ دو ہزار یونٹ بجلی بھی مراعات و سہولیات کا حصہ ہے۔ سرکاری پانی کا استعمال مکمل طور پہ مفت ہے۔ 300 لیٹر پٹرول بھی مفت ہے۔ ایوان بالا میں یہ بتایا گیا کہ 30جنوری 2014 تک تقریباً4689لیٹر پٹرول بعد از ریٹائرمنٹ استعمال کیا جا چکا ہے۔ جب کہ ایک بلٹ پروف گاڑی کی مرمت و بحالی پہ آنے والا 33,75,029روپے کا خرچ بھی حکومت برداشت کر چکی ہے۔
یہاں یہ بات واضح کرنا نہایت ضروری ہے کہ اس دو کالمی خبر کو موضوع بحث بنانا ہرگز بھی کسی کی ذات پہ بحث کرنا نہیں ہے۔ بلکہ یہ پاکستان کے نظام پہ بحث کرنا ہے۔ سب تحریر کرنے کا مقصد اس ملک کے نظام پہ بحث کرنا ہے جس کے ذمے 65ارب ڈالر سے زیادہ کے بیرونی قرضے ہیں۔ کسی کی ذات پہ تنقید ہرگز مقصد نہیں ہے۔ ضرب تو اس بوسیدہ نظام پہ لگانی ہے۔ سوئی ہوئی قوم شاید یہ نہیں جانتی کہ جس بجلی کے نہ ہونے کا بل وہ ہر مہینے باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں وہ کسی بنگلے ، حجرے یا محل وغیرہ پہ مراعات کی صورت میں استعمال ہوتی ہے۔ یہ سادہ لوح عوام شاید یہ نہیں جانتی کہ جس پٹرول کے حصول کے لیے وہ قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں اور جس کو سستا کر کے حکومت ان پہ احسان جتاتی ہے وہی پٹرول اشرافیہ کو مفت میں دستیاب ہے۔ ایک عام پاکستانی کا ٹیلی فون کا کنکشن صرف2,010/-روپے کے واجبات پہ کٹ جاتا ہے( باوجود بل نہ ملنے اور مہینوں فون بند رہنے پہ بھی)۔ لیکن بعض جگہ پہ ہزاروں مفت کالز کی سہولت دے دی جاتی ہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ حکومتِ وقت یا ادارے ان مفت کالز، مفت پٹرول، مفت گاڑیوں، مفت ملازمین،کا خرچہ کہاں سے پورا کرتی ہے ؟ عوام سے۔۔۔ عوام پہ ٹیکسوں کا بوجھ لاد کے۔۔۔ حکومت کی مثال ایک دھوبی کی سی ہے اور عوام کی اس کے ہاتھ میں نچڑتے کپڑے کی سی اور چھوا چھو کی آواز بھی نہیں آتی ۔
کتنے سرکاری افسران سبکدوشی کے بعد مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں؟ کتنے لوگ گھروں میں بیٹھ کے عوام کے ٹیکس کھا رہے ہیں؟ کتنے لوگ ہیں جو پٹرول و گیس کے جھنجھٹ سے آزاد ہیں؟ کتنے ایسے ریٹائرڈ افسران ہیں جو تا حیات بجلی، گیس، فون وغیرہ مالِ مفت سمجھ کے دلِ بے رحم کے ساتھ کھا رہے ہیں؟ لیکن چھوڑیے ان تمام سوالات کو ۔ذرا دیکھتے ہیں کہ سینٹ انتخابات کا زیادہ سے زیادہ ریٹ کہاں تک گیا۔ اور کرکٹ ورلڈ کپ میں ہمارے کھلاڑی کیسے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے ہیں۔ کیوں کہ اہم موضوعات تو بس یہی ہیں جن کو میڈیا بھی خوب کوریج دے رہا ہے۔ باقی کی تمام بحث تو صرف ایک " دوکالمی خبر " ہی ہے اور یہ دو کالمی خبریں تو ایسی ہی ہوتی ہیں کہ بس ایک نگاہ ڈال لی جائے۔ بس۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.