فوج بیرکوں میں کیوں نہیں جاتی۔۔۔

ہفتہ 14 جولائی 2018

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

فوج کا کیا کام ہے کہ وہ سول اداروں کے کام کرنے میں کسی بھی قسم کا خلل ڈالے۔ جمہوری معاشروں میں فوج کا کیا کام کہ وہ کسی اور ادارے کا کام اپنے ذمے لے کر ایسے سر انجام دینا شروع کر دے کہ یہ تو جیسے اُس کا ہی کام ہے۔ اور مجھے سخت اختلاف ہے کہ فوج آخر بیرکوں میں کیوں نہیں بیٹھی رہتی۔ جب محاذ پہ ضرورت محسوس ہو وہاں جائے، لڑئے، جیتے، فتح کا جشن منائے اور بس ۔

سول اداروں کے کام میں یہ جو مداخلت ہو رہی ہے یہ کسی بھی طرح سے جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ ہر متعلقہ ادارے کو اس کا کام کرنے دیا جائے۔ نہ کسی کے کام میں ٹانگ اڑائی جائے نہ کسی کو اپنے کام میں ٹانگ اڑانے دی جائے۔
یہ راگ ہم صبح شام سنتے ہیں۔ اور اس دفعہ پھر ہمیں یہ راگ سننے کو مل رہا ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں کی خوبی یہ ہے کہ عوام نہ بھی سننا چاہیے تو انہیں ٹھونسا جاتا ہے کانوں میں کہ تم ہمارے غلام ہو ، کامے ہو ، کمی ہو تمہیں یہ سننا ہے۔

(جاری ہے)

ماضی قریب میں پاکستان کے کچے چھٹے کی مالک جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے اپنے تین مطالبات پیش کیے ہیں۔ اور ان تین مطالبات کے مانے نہ جانے کی صورت میں ہلکی ہلکی سرگوشیاں ابھری ہیں کہ انتخابات 2018 کا بائیکاٹ کر دیا جائے گا۔ اور قوی امکانات ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ جس طرح کے بے تکے مطالبات ہیں نواز لیگ کے اس پہ کوئی بھی سیاسی جماعت نہ ان کا ساتھ دے گی نہ ان کے حواریوں سے امید کی جا سکتی ہے کہ ان کی بلند بانگ و دہل ان کی حمایت کریں گے۔

لیکن یہ جاننا بھی نہایت ضروری ہے باقی دو مطالبات تو نواز لیگ کے ہیں ہی غیر منطقی اور دیوانے کی بڑھک لیکن فوج کو انتخابات میں ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکنے کا مطالبہ اپنی جگہ پہ نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ اس کی تہہ میں اس جماعت کے مقاصد کیا ہیں وہ بھی سامنے آئے تو اپنی جگہ اہم ہوں گے۔
پاکستان کی انتخابی تاریخ میں جب بھی انتخابات فوج کی زیر نگرانی ہوئے ان پہ محدودے چند شکایات کے بطور مجموعی تمام جماعتوں نے اعتماد کا اظہار کیا اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ انتخابات 2013 کے بعدجب تحریک انصاف احتجاج کی راہ پہ چل نکلی تو فوج کی مکمل زیر نگرانی ہونے والے ضمنی انتخابات پہ اس جماعت نے کوئی اعتراض نہ کیا۔

اسی طرح انتخابات دو ہزار اٹھارہ میں بھی تمام جماعتیں اس نقطے پہ متفق نظر آتی ہیں کہ عام انتخابات کا انعقاد فوج کی زیر نگرانی ہونا لازمی ہے اور اس سلسلے میں پاک فوج نے بھی ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کا یقین دلایا ہے ایسے میں پاکستان مسلم لیگ نواز جیسی تصادم پہ مائل جماعت کی طرف سے ایسا مطالبہ آنا اپنی جگہ بہت سے مضمرات رکھتا ہے۔ موجودہ پارٹی صدر شہباز شریف بے شک کہہ چکے ہیں کہ وہ بائیکاٹ کی طرف نہیں جائیں گے ۔

اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے بیانیے میں واضح فرق ہے۔ بڑے میاں صاحب ہر طرح سے تصادم چاہتے ہیں۔ وہ چاہ رہے ہیں کہ انہیں سیاسی شہید بننے کا موقع کسی نہ کسی طرح میسر آ جائے لیکن چھوٹے میاں صاحب کسی نہ کسی حوالے سے نہ صرف مفاہمت کا لہجہ رکھتے ہیں۔ بلکہ وہ معاملات کو نو ریٹرن پہ لے کے بھی نہیں جانا چاہتے انہیں شاید اپنا مستقبل عزیز ہے۔

میاں نواز شریف کے پاس اس وقت شاید آخری کارڈز ہیں جو وہ کھیل رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صوبائی دارلحکومت میں جب آپ مختارِ کل تھے تو آپ ایک میچ تک فوج کی مدد کے بغیر نہیں کروا سکے اور اس پہ آپ فوج کا شکریہ ادا کرتے ہوئے نہیں تھکتے تھے۔ تو اب جب کہ پورے ملک میں گہما گہمی ہو گی۔ کروڑوں لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے گھروں سے باہر ہوں گے۔

اور حکومت بھی نگران جس کے اختیارات بھی محدود تو اس حوالے سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ الیکشن کو سبوتاژ کرنے کی کسی کوشش سے نمٹنا سول اداروں کے بس کی بات ہو گی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ چاہا ہی یہ جا رہا ہے کہ فوج کا عمل دخل ختم کر کے انتخابات کو اس طرح سے متنازعہ بنا دیا جائے کہ عوام کی توجہ کرپشن سے ہٹا کے کہا جا سکے کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ انتخابات شفاف نہیں ہو سکتے۔

بچہ بچہ جانتا ہے کہ فوج کے تعاون کے بغیر ایک ہی دن پورے ملک میں انتخابات کا انعقاد ایک ناممکن عمل ہے۔ لیکن اس کے باوجود اتنی بڑی جماعت کی طرف سے ایسا مطالبہ معنی خیز ہے۔ بادی النظر میں ایسا صرف اداروں سے مخاصمت اور بغض کی وجہ ہے ورنہ کوئی دو رائے نہیں کہ فوج کے تعاون کے بغیر انتخابات کا انعقاد ہی ناممکن ہے موجودہ معروضی حالات میں۔


آپ لاکھ کوششیں کر لیجیے۔ اب شاید عوام کا رخ اپنی مخصوص مفاداتی سوچ کی طرف پلٹانا آپ کے بس میں نہیں رہا۔ جب آپ اپنی حکومت میں فوج کے کردار کے بناء ملک میں کرکٹ میچ تک نہیں کروا سکتے تو پورے ملک میں انتخابات فوج کے بناء کروانا ناممکنات میں سے ہے۔ جب شکنجہ کس دیا جاتا ہے تو منمنائی آواز نکلتی ہے کہ " فوج بیرکوں میں واپس چلی جائے" ۔لیکن اس وقت بغض میں یہ بھول جاتے ہیں کہ فوج تو رہتی ہی بیرکوں میں ہے یہ تو آپ ہیں جو حالت امن میں بھی اپنی ناکامیوں ، اور تباہ حال سول اداروں کی کارکردگی عوام سے چھپانے کے لیے فوج کو مدد کے لیے پکار تے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :