
فوج بیرکوں میں کیوں نہیں جاتی۔۔۔
ہفتہ 14 جولائی 2018

سید شاہد عباس
یہ راگ ہم صبح شام سنتے ہیں۔ اور اس دفعہ پھر ہمیں یہ راگ سننے کو مل رہا ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں کی خوبی یہ ہے کہ عوام نہ بھی سننا چاہیے تو انہیں ٹھونسا جاتا ہے کانوں میں کہ تم ہمارے غلام ہو ، کامے ہو ، کمی ہو تمہیں یہ سننا ہے۔
(جاری ہے)
پاکستان کی انتخابی تاریخ میں جب بھی انتخابات فوج کی زیر نگرانی ہوئے ان پہ محدودے چند شکایات کے بطور مجموعی تمام جماعتوں نے اعتماد کا اظہار کیا اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ انتخابات 2013 کے بعدجب تحریک انصاف احتجاج کی راہ پہ چل نکلی تو فوج کی مکمل زیر نگرانی ہونے والے ضمنی انتخابات پہ اس جماعت نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ اسی طرح انتخابات دو ہزار اٹھارہ میں بھی تمام جماعتیں اس نقطے پہ متفق نظر آتی ہیں کہ عام انتخابات کا انعقاد فوج کی زیر نگرانی ہونا لازمی ہے اور اس سلسلے میں پاک فوج نے بھی ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کا یقین دلایا ہے ایسے میں پاکستان مسلم لیگ نواز جیسی تصادم پہ مائل جماعت کی طرف سے ایسا مطالبہ آنا اپنی جگہ بہت سے مضمرات رکھتا ہے۔ موجودہ پارٹی صدر شہباز شریف بے شک کہہ چکے ہیں کہ وہ بائیکاٹ کی طرف نہیں جائیں گے ۔ اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے بیانیے میں واضح فرق ہے۔ بڑے میاں صاحب ہر طرح سے تصادم چاہتے ہیں۔ وہ چاہ رہے ہیں کہ انہیں سیاسی شہید بننے کا موقع کسی نہ کسی طرح میسر آ جائے لیکن چھوٹے میاں صاحب کسی نہ کسی حوالے سے نہ صرف مفاہمت کا لہجہ رکھتے ہیں۔ بلکہ وہ معاملات کو نو ریٹرن پہ لے کے بھی نہیں جانا چاہتے انہیں شاید اپنا مستقبل عزیز ہے۔ میاں نواز شریف کے پاس اس وقت شاید آخری کارڈز ہیں جو وہ کھیل رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صوبائی دارلحکومت میں جب آپ مختارِ کل تھے تو آپ ایک میچ تک فوج کی مدد کے بغیر نہیں کروا سکے اور اس پہ آپ فوج کا شکریہ ادا کرتے ہوئے نہیں تھکتے تھے۔ تو اب جب کہ پورے ملک میں گہما گہمی ہو گی۔ کروڑوں لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے گھروں سے باہر ہوں گے۔ اور حکومت بھی نگران جس کے اختیارات بھی محدود تو اس حوالے سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ الیکشن کو سبوتاژ کرنے کی کسی کوشش سے نمٹنا سول اداروں کے بس کی بات ہو گی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ چاہا ہی یہ جا رہا ہے کہ فوج کا عمل دخل ختم کر کے انتخابات کو اس طرح سے متنازعہ بنا دیا جائے کہ عوام کی توجہ کرپشن سے ہٹا کے کہا جا سکے کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ انتخابات شفاف نہیں ہو سکتے۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ فوج کے تعاون کے بغیر ایک ہی دن پورے ملک میں انتخابات کا انعقاد ایک ناممکن عمل ہے۔ لیکن اس کے باوجود اتنی بڑی جماعت کی طرف سے ایسا مطالبہ معنی خیز ہے۔ بادی النظر میں ایسا صرف اداروں سے مخاصمت اور بغض کی وجہ ہے ورنہ کوئی دو رائے نہیں کہ فوج کے تعاون کے بغیر انتخابات کا انعقاد ہی ناممکن ہے موجودہ معروضی حالات میں۔
آپ لاکھ کوششیں کر لیجیے۔ اب شاید عوام کا رخ اپنی مخصوص مفاداتی سوچ کی طرف پلٹانا آپ کے بس میں نہیں رہا۔ جب آپ اپنی حکومت میں فوج کے کردار کے بناء ملک میں کرکٹ میچ تک نہیں کروا سکتے تو پورے ملک میں انتخابات فوج کے بناء کروانا ناممکنات میں سے ہے۔ جب شکنجہ کس دیا جاتا ہے تو منمنائی آواز نکلتی ہے کہ " فوج بیرکوں میں واپس چلی جائے" ۔لیکن اس وقت بغض میں یہ بھول جاتے ہیں کہ فوج تو رہتی ہی بیرکوں میں ہے یہ تو آپ ہیں جو حالت امن میں بھی اپنی ناکامیوں ، اور تباہ حال سول اداروں کی کارکردگی عوام سے چھپانے کے لیے فوج کو مدد کے لیے پکار تے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.