نیا پاکستان، پچاس لاکھ گھروں کا پہلا گھر

جمعہ 15 مارچ 2019

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

مبارک ہو پاکستانیو۔۔۔۔ تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ گئی ہے۔ نیا پاکستان اسکیم کے تحت تعمیر ہونے والے پچاس لاکھ گھروں میں سے پہلے گھر کو بنانے کے لیے بل پاس کر لیا گیا ہے۔ اور باقی انچاس لاکھ ننانوے ہزار نو سو ننانوے گھر بھی جلد ہی پاکستان کے نقشے پہ ابھرے نظر آئیں گے۔ اب وہ وقت قطعاً دور نہیں ہے کہ جب ہر بے گھر کے پاس اپنا گھر ہو گا۔

ہر بے روزگار کے پاس اپنا روزگار ہو گا۔ ہر غریب کے پاس دو وقت کے کھانے کے باعزت کھانا ہوگا۔ ہر یتیم کے سر پہ ریاست باپ کا سایہ بنے گی۔ ہر بیوہ کا آسرا یہ ریاست خود بنے گی۔ اور دودھ و شہد کی نہروں سے فیض یاب ہونے کو بھی اب تیار ہو جاو۔ پاکستانیو جو دن پھرنے تھے وہ پھر گئے ہیں۔ وعدہ ایفا ہو گئے ہیں اور اب تم دیکھو گے کہ کیسے ہم چٹکیوں میں پچاس لاکھ گھر بنا کے تمہارے حوالے کر دیں گے۔

(جاری ہے)

بس ہم کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آغاز آخر کیسے ہو اس منصوبے کا۔ اور ہم اس منصوبے کے آغاز کے لیے عملی اقدامات کرنے کی وجہ سے پنجاب جیسے بڑے صوبے کے ضرورت مند ممبران صوبائی اسمبلی کو قومی اعزازات سے نوازنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں کہ انہوں نے نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے لیے پہلا قدم اٹھا کے ہمارے لیے راستہ آسان کر دیا ہے۔
پہلا قدم اٹھ گیا ہے۔

اور پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے بل کے تحت اب وزیر اعلیٰ پنجاب کو لاہور میں ایک مفت گھر رہنے کو حکومت پنجاب کی طرف سے دیا جائے گا۔ بس شرط یہ ہے کہ وہ لاہور میں گھر کا مالک نہ ہو۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ وہ کسی بھی حوالے سے لاہوریا نہ ہو۔وزیر اعلیٰ جی کو ملازمین اور گاڑی وغیرہ بھی حکومت کی طرف سے ہی فراہم کیے جائیں گے، جن کا خرچ بھی ظاہر سی بات ہے حکومت ہی برداشت کرئے گی نا، ہمارے مزدور المنش وزیر اعلیٰ کے پاس بھلا انہیں دینے کو کچھ ہے ہی کہاں۔

اور خوشی کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے غریب ممبران پنجاب اسمبلی بھی ککھ پتی سے لکھ پتی ہو گئے ہیں۔ کیوں کہ ان کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں بھی گوناگوں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اورشنید یہی ہے کہ اس اضافے پہ عوام سکھ کا سانس لیں گے کہ بھلا ان کے نمائندے غریب ہوں تو عوام کا معیار زندگی کیسے بلند ہو سکتا ہے۔ ایک رکن صوبائی اسمبلی کی تنخواہ 83 ہزار سے بڑھا کر دو لاکھ کر دی گئی ہے۔

ویسے تو یہ بھی کم ہے لیکن چلیے آٹے میں نمک کے برابر تو ہوئی۔ غربت کے پیش نظر ان کے ڈیلی الاونس(بے چارے ڈیلی ویجز ملازمین ہی تو ہیں عوام کے)، مہمانداری الاونس( ان کے آنے والے مہمان عوام کے حقوق پہ بحث و مباحثے کے لیے ہی تو آتے ہیں ان کے پاس)، یوٹیلیٹی الاونس (ان کے گھروں میں بجلی ، فون ، گیس، پانی عوام کے ذمے نہ ہو تو کس کے ذمے ہو گا بھلا)،دفتری الاونس(چاہے دفتر حاضری دیں یا نہ دیں)، ہاوس رینٹ(جی جی مکان کا کرایہ ، بے چارے کرائے دار ہی تو ہیں یہ ) و دیگر مد میں بھی اضافہ بھی کیا گیا ہے کیوں کہ بے چاروں کا حق بنتا تھا۔


 صوبے کے وزیر اعلیٰ انتہائی ہی کوئی شریف النفس انسان ثابت ہوئے ہیں۔ ان سے اصرار کیا گیا کہ وہ اپنی تنخواہ و مراعات میں بھی اضافہ قبول فرمائیں کیوں کہ یہ عوام کا پرزور مطالبہ ہے، اور اس مقصد کے لیے عوام نے اپنی تجوریوں کے منہ بھی کھول دیے ہیں۔مگر اندرونی ذرائع کے مطابق وہ ٹس سے مس نہ ہوئے اور میں نہ مانوں کی عملی تصویر نظر آئے۔

بولتے وہ ویسے ہی کم ہیں لہذا بس اتنا ہی ان کے لبوں سے سنا گیا کہ ناں، ناں،ناں۔ لیکن مسلسل اصرار پہ وہ صرف سوا چار لاکھ ماہانہ پہ راضی ہوئے۔ اس دوران ان کی بڑبڑاہٹ سے واضح ہوا کہ وہ بضد تھے کہ ان کے لیے پچاس ہزار ہی کافی تھے۔ لیکن عوام کے اصرار پہ انہوں نے چارو ناچار سوا چار لاکھ کا ماہانہ پیکج عوام کی نوکری کے لیے قبول کیا ہے۔ لیکن ان کا اصرار یہ بھی ہے کہ دیگر اخراجات طشت ازبام نہ کیے جائیں کیوں کہ پھر۔

۔۔وزرا، مشیران، پارلیمانی سیکریٹریز، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، سپیشل اسسٹنٹ وغیرہ بھی عوام کے اصرار اور پرزور نعرہ بازی کے بعد تنخواہوں میں تین گنا اضافہ لینے پہ راضی ہوئے۔کیوں کہ اطلاعات یہ تھیں کہ اگر ہمارے عوامی نمائندے اپنی تنخواہوں میں تین گنا اضافہ لینے میں حیل و حجت سے کام لیں تو ان سے زبردستی اس بل کی منظوری لی جائے گی۔ شنید ہے کہ تمام ممبران صوبائی اسمبلی اور حکومتی عہیدیدار اس حوالے سے احتجاج کا ارادہ رکھتے ہیں کہ جب وہ اتنا اضافہ تنخواہوں میں نہیں لینا چاہتے تو عوام کیوں بضد ہیں اس اضافے پہ۔

دوسری جانب عوام نے بھی جوابی احتجاج کا ارادہ کر لیا ہے کہ اگر ہمارے ممبران صوبائی اسمبلی انکار کرتے ہیں اضافہ لینے سے تو وہ ان کی جھونپڑیوں میں زبردستی پھینک آئیں گے۔ عوام نے اپنے محلات پہ اس حوالے سے خیر مقدمی بینر بھی آویزاں کرنے شروع کر دیے ہیں کہ ان کی خوشی دیدنی ہے۔مزے مزے کے پکوان تیار کیے جارہے ہیں۔ کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

عوامی نمائندوں کی جھونپڑیوں میں سوگ کا عالم ہے کہ ابھی تک سکتے کے عالم میں ہیں کہ وہ ماہانہ تین سے چار لاکھ لے کر کس منہ سے ایوان میں جائیں گے۔اب دیکھیے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے لیکن ابھی تک تو عوام کامیاب رہے ہیں۔ اور بل گورنر صاحب کے پاس دستی پہنچا دیا گیا ہے۔ عوام خود یہ بل اس لیے پہنچا کے آئے کہ خبریں زیر گردش تھیں کہ محکمہ ڈاک اور کورئیر کمپنیاں بھی عوامی نمائندوں کے ساتھ مل چکی تھیں۔

اور سازش یہی تھی کہ بل ڈاک میں پہنچتے ہی گورنر ہاؤس پہنچانے کے بجائے ریزہ ریزہ کر دیاجائے گا۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے وزیرااعظم صاحب کو نہ تو اس ملک کی عوام کی خواہشات کا ذرا بھی احساس ہے نہ ہی انہیں صوبائی اسمبلی کے ممبران کی غربت کی پرواہ ہے۔ کہ انہوں نے اس پورے قضیے کی ہی مخالفت کر دی ہے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ افسوس کا اظہار بھی کر دیا ہے۔

یعنی کہ اب ان غریبوں کی تنخواہ میں لاکھ دو لاکھ کا اضافہ بھی ہمارے وزیر اعظم صاحب کو گوارا نہیں ہے۔ حد ہوتی ہے بے حسی کی بھی، ظلم کی بھی، نا انصافی کی بھی۔ وزیر اعظم کا افسوس نا منظور، نامنظور۔۔۔۔ ہم تو بلکہ وزیر اعظم پاکستان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ وزیرعلیٰ کو لاہور میں مفت گھر دینے سے نیا پاکستان اسکیم کے تحت بننے والے پچاس لاکھ گھروں کی ابتدا ہو گئی ہے۔ تبدیلی زندہ باد، عوام پائندہ باد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :