محاذ پہ ڈٹے سپاہیوں پہ ظلم

منگل 7 جولائی 2020

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

وفاق کے اس وقت سب سے بڑے ہسپتال پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں چلڈرن آپریشن تھیٹر کے ایک ٹیکنیشن کی شہادت کے بعد ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کیلیے مشکلات کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ وینٹی لیٹر مناسب تعداد میں ہیں نہیں، مریض ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہے ہیں اب تو لاکھ کی نفسیاتی حد بھی عبور ہو چکی ہے۔ اور جو لاہور سے خبریں ہیں کہ لاکھوں افراد متاثر ہو سکتے ہیں وہ بھی باعث پریشانی ہے۔

یقین مانیے دل رنجیدہ ہو گیا ہے۔ڈاکٹرز و پیرا میڈیکل سٹاف وہ لوگ ہیں جن کے سامنے یقینی موت ہے لیکن یہ میدان سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ بزدل سپائی جنگ چھڑنے پہ چھٹی کی درخواست دیتے ہیں۔ اور بہادر سپاہی جنگ کی دعائیں مانگتے ہیں اور جنگ چھڑتے ہی رضاکارانہ طور پر اگلے محاذ پہ جانے کی درخواست کر دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہمارے یہ سپاہی بھی اگلے محاذ پہ ڈٹے ہوئے ہیں۔

یہ سفید وردی پہنے ہوئے سپاہی میدان سے تو پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن ہم بطور قوم ان کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں۔ ہم بطور قوم ان کو اپنا حصہ سمجھ نہیں رہے۔ اور یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ان کی پکار شائد وقتی مفادات کے لیے ہے۔ اور ان کا واویلا بھی شائد فرائض سے جان چھڑانے کے لیے ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے ڈاکٹرز اور طبی عملے کے اس وبائی صورتحال میں معمولات زندگی جاننے کی کوشش کی ہے۔

کالم، آرٹیکل، بلاگ لکھا اور فرض ادا ہوا، تقریر کی اور سمجھا ہم نے حق ادا کر دیا، زبانی جمع خرچ دکھانے کے لیے پریس کانفرنس کی اور سمجھ بیٹھے کہ ہم تو اپنی ذمہ داری نبھا بیٹھے۔ زمینی حقائق کے مطابق حقیقی میدان مین صرف میڈیکل سٹاف ہے جو اس وائرس کا خطرہ ہوتے ہوئے بھی اس سے لڑ رہا ہے۔ صاحبانِ عقل ان کی پکار پہ توجہ دیجیے، ان کے واویلے میں پوشیدہ بین سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں۔

ان کی پریشانی کی وجہ کیا ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق اب پورے پاکستان سے انتہائی سینئرز ڈاکٹرز اس کا شکار ہو کے جاں سے جا رہے ہیں۔ پیرا میڈیکل سٹاف کے لیے بھی صورتحال حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ ڈاکٹر اسامہ ہوں یا او ٹی ٹیکنیشن ظفر اقبال دونوں نے ہی میدان عمل سے پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کیا۔ ہولی فیملی ہسپتال کی ڈاکٹر رابعہ طیب ہوں یا حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور کے ڈاکٹر جاوید، یہ سپاہی اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

یہ واویلا کرتے ہیں کہ ہمارے پاس سہولیات موجود نہیں۔ ہمیں کٹس نہیں فراہم کی جاتیں، ہمیں حفاظتی لباس کی کمی کا سامنا ہے لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں یہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے یہ رونا رو رہے ہیں۔ ہم اس حقیقت سے نظریں چراتے ہیں کہ ڈاکٹرز و طبی عملہ آج نا ہوتا تو ہمارے ہاں حالات کس قدر مختلف ہو سکتے ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز جب مفادات کے لیے ہڑتال کرتے تھے تو ہم نے ان کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ اس پہ تحریروں کے انبار بھی لگائے۔

لیکن آج اگر یہی ینگ ڈاکٹرز سہولیات کی فراہمی کے لیے ہڑتال یا احتجاج کرتے ہیں تو یقین جانیے راقم الحروف کی طرف بہت سے دیگر لکھاری بھی ان کو حق پہ سمجھتے ہیں۔ کرونا وارڈز میں فرائض سر انجام دینے والے ڈاکٹرز و پیرا میڈیکل سٹاف ایک دو دھاری تلوار پہ چل رہے ہیں۔ ان کے پاس سہولیات کا فقدان ہے اور یہ اپنے گھر والوں سے بھی کٹ کر رہ رہے ہیں۔

چھوٹی عید طبی عملے نے ہسپتالوں میں منائی اور بڑی عید کے بارے میں صورتحال حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ ڈاکٹرز شور کر رہے کہ آپ لاک ڈاؤن نا ختم کیجیے جب کہ ہم ان کی ایک سننے کو تیار نہیں۔ ڈاکٹرز وارننگ دے رہے کہ جس طرح سے عوام باہر نکل رہی ہے یہ صورتحال کو سنگین بنا دے گا لیکن ہمارے نزدیک تو ڈاکٹرز صرف اور صرف مفاداتی ٹولہ ہے اور کچھ نہیں۔

یہ جو ڈاکٹرز رو پیٹ رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن نا ختم کیجیے۔ اور تمام کمرشل کاروبار نا کھولیے تو کیوں ایسا کہتے ہیں؟ ان کے کہنے میں خدشات چھپے ہیں۔ ہم نے سالوں محنت کر کے اپنا صحت کا نظام اور انتظامی ڈھانچہ تباہ کیا ہے۔ اور ڈاکٹرز جانتے ہیں کہ ہمارا صحت کا نظام جس نہج پہ ہے وہ اچانک اور بڑھتی ہوئی مریضوں کی تعداد کو سنبھالنے سے قاصر ہے۔

اور ڈاکٹرز ہی جانتے ہیں کہ ہسپتال بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اور اب تو عملاً بھی ایسا ہے کہ ہسپتال مریض نہیں لے سک رہے۔
 ابھی تو صورتحال کسی نا کسی طرح قابو میں ہے لیکن ہم نے جس طرح لاک ڈاؤن کو عملاً مکمل طور پر ختم کر دیا ہے کچھ بعید نہیں کہ کرونا کی وباء ہمارے قابو سے باہر ہو جائے۔ جس انداز سے بازار کھلے، جیسے ہم نے عوام کا ہجوم سڑکوں پہ لا کھڑا کیا ہے کچھ بعید نہیں کہ ڈاکٹرز کے خدشات اور پریشانی ہمیں عملی سطح پہ نظر آنا شروع ہو جائیں۔

ہم نے ڈاکٹرز کی ہدایات اور خدشات مکمل طور پر نظر انداز کر دیے ہیں۔ ہم نے ان سپاہیوں کی بات سننا چھوڑ دی ہے جو ہمارے فرنٹ لائن وارئیر ہیں۔ ہم اگر اپنے فرنٹ لائن وارئیرز پہ ہی بھروسہ نہیں کریں گے تو ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ کرونا جیسے دشمن سے لڑ سکیں گے۔ ہم یہ تو توقع کر رہے ہیں کہ وہ ہمارے لیے کرونا کے خلاف لڑیں لیکن ہم اس کے ساتھ ساتھ انہیں فیصلہ سازی میں شامل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔


سڑکوں پہ اکا دکا گاڑیوں کے بعد اس وقت عملاً ٹریفک جام کی صورتحال ہو گئی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں ہر طرح کے ایس او پیز کی دھجیاں اڑانا شروع کر دی گئی ہیں۔ مخصوص دوکانوں کے بعد رفتہ رفتہ چھوٹی مارکیٹیں کھل چکی ہیں۔ اور اب بڑے شاپنگ مالز کھلنے کی نویدِ نا چاہی بھی سننے کو مل رہی ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ کچھ دن میں یہ بھی ہو جائے گا۔

عیدالفطر پہ ہم نے کھل کے شاپنک کی اور نتیجہ ہر چوبیس گھنٹے میں مریضوں کی بڑھتی تعداد کی صورت میں سامنے آنا شروع ہو گیا ہے، عید الاضحی پہ بھی ہم خوب جانوروں کے ساتھ سیلفیاں بنائیں گے، منڈیاں سجیں گی۔ عوام کا ہجوم بتا رہا ہے کہ وہ کرونا کو ایک مذاق سے بڑھ کے سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن واحد ہمارے فرنٹ لائن پہ کھڑے سفید کوٹ پہنے سپاہی ہیں جو حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں۔ جو جانتے ہیں کہ معاملات کس نہج پہ جا سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ حالات ان کے خدشات کے برعکس بہتر ہی رہیں۔ لیکن اگر ایسا نا ہوا اور لاک ڈاؤن کو عملاً ختم کرنے کے بعد وباء نے حقیقت میں وبائی صورتحال اختیار کر لی تو اموات کا ذمہ دار کون ہو گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دینے کو کوئی تیار نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :