حسین رضی اللہ عنہ سب کے

اتوار 30 اگست 2020

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

شجاعت میں مثلِ جناب علی کرم اللہ وجہہ، عباس رضی اللہ عنہ جیسا جری سپہ سالارِ لشکر، اِذنِ جنگ مل جاتا تو تاریخ کا دھارا مختلف ہوتا۔ لیکن وقت کے امام نے اس کو ایک جنگ کے بجائے معرکہء حق و باطل رہتی دنیا کے لیے قائم رکھنا تھا۔ اور آج تک جہاں حق کا ذکر ہو وہاں فلسفہء حسینیت کی پکار سنائی دیتی ہے اور جہاں باطل کی پہچان کی جانی مقصود ہو اسے یزیدیت سے پہچانا جاتا ہے۔

چھ ماہ کے علی اصغر رضی اللہ عنہ کے گلے کو تین منہ کے تیر نے چھلنی کیا تو اس کے بعدکیا یزیدیت کا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب نہیں ہوا؟ جناب قاسم رضی اللہ عنہ کا سرزمینِ کرب و بلا میں ٹکڑے ہو جانا، علی اکبر رضی اللہ عنہ جیسے کڑیل جوان کے سینے میں برچھی کا اتر جانا، عون و محمد علہیم السلام اجمعین کی بچپنے کو شکست دیتے ہوئے داد شجاعت دینا۔

(جاری ہے)

حبیب ابن مظاہر رضی اللہ عنہ جیسے پر خلوص دوست کا آوازِ امام حسین رضی اللہ عنہ پہ لبیک کہنا، دربارِ یزید میں بنتِ علی سلام اللہ علہیا کا تاریخی خطبہ، کیا یہ سب آج کے دور میں مشعل راہ اب نہیں رہا؟ کیا کردارِ امام حسین رضی اللہ عنہ اور اصحاب حسین رضی اللہ عنہ آج کے دور میں زندگیوں میں نکھار لانے کے لیے کافی نہیں؟ دلوں کو شفاف، پاکیزہ کرنے کے لیے کربلا کا پیغام کافی نہیں؟ بالکل کافی ہے۔

لیکن حقیقتاً ہم آج حسینیت سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
 آج ہم نے جناب حسین رضی اللہ عنہ کی میدان کرب و بلا میں رضائے الہی کے لیے دی گئی قربانی کو مخصوص گروہ، فرقے، یا مذہب سے منسوب کر دیا ہے۔ جب کہ حسینیت کا پیغام تو آفاقی ہے کہ جس سے نیلسن منڈیلا جیسا راہنما اپنی جہدو جہد کی کامیابی کے لیے سیکھتا ہے۔ کنور مہیندرا سنگھ بیدی جناب حسین رضی اللہ عنہ کی شان میں رطب اللسان ہے اور ہم امام حسین کو کسی مخصوص فکر کی جاگیر بنائے بیٹھے ہیں۔

رادھا کرشن ہوں یا مہاتما گاندھی اغیار فلسفہء حسینیت کو پہچان گئے لیکن ہم نے پیغام کربلا کو پہچاننے کے بجائے اختلافی امور کو ہوا دینا زیادہ اہم سمجھا۔
کربلا سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ حبیب ابن مظاہر رضی اللہ عنہ کی عمرکے حوالے سے روایات مختلف ہیں۔ دوست ہیں امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے۔ ہم نے ایک لمحہ بھی دوست کے ساتھ ان کے کھڑے ہونے میں لغزش دیکھی؟ ایک لمحہ بھی یقینی موت دیکھتے ہوئے انہوں نے دوست کا ساتھ دینے کا ارادہ ترک کرنے کا سوچا؟ دوستی کے اس پیغام کو آج ہم نے اپنی زندگیوں میں کتنا نافذ کیا؟ آج ہم دوستی میں خلوص و وفاداری کے کتنے قائل ہیں؟ سعید بن عبداللہ رضی اللہ عنہ امام کی نصرت میں ان کی دوران نمازِ ظہر حفاظت میں اپنے سینے پہ تیر جھیلتے رہے۔

فرض، خلوص، استقامت کیا ایسا آج رتی برابر بھی ہم اپنا پا رہے ہیں؟ کیا اس پیغام کربلا کو سمجھتے ہوئے ہمارے قدم بھی حق بات پہ مضبوط کھڑے رہ پا رہے ہیں؟ جب امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے تمام اصحاب و ساتھیوں کو اپنی بیعت سے نا صرف آزاد کیا بلکہ جنت کی نوید بھی سنائی تو اس کے باوجود جناب مسلم ابن عوسجہ کے الفاظ تاریخ کا حصہ بن گئے کہ "میرے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیے جائیں اور میں پھر زندہ کیا جاوں اور ایسا ستر مرتبہ کیا جائے تو بھی آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا" یہ استقامت، یہ حوصلہ، یہ جرات ظلم کے خلاف ہی تو کربلا کا پیغام تھا لیکن ہم فروعی اختلافات میں ایسے الجھے کہ ہم نے حقیقی پیغام کربلا کا پس پشت ڈال گیا۔

ننھے علی اصغر رضی اللہ عنہ کو خود ماں اپنے ہاتھوں سے تیار کر رہی ہے۔ کیا آج کی مائیں اس کردار سے کچھ حاصل نہیں کر سکتیں؟
کربلا میں کیا نہیں تھا کہ جسے ہم عملی زندگی میں نا لا پائیں۔ دوستی کا خلوص، ماں کی اولاد سے محبت اور اولاد کو راہ خدا قربان کر دینا، بیوی کی وفا شعاری اور قربانی پہ شکر ادا کرنا، ظلم کے خلاف نعرہء حق بلند کرنے کے لیے پہلے جانے کی کوشش، بچے جوانوں سے پہلے شہادت چاہ رہے ہیں، بوڑھے ناتواں کندھوں میں فولاد کی سی طاقت جمع کیے ہوئے راہ حق پہ جاں دینے کو بیتاب ہیں۔

بھائی کی بھائی سے وفا پہ عقل حیران ہے۔ ظالم نولاکھ، حق گو صرف 72لیکن صرف استقامت، صبر، حوصلہ ایسا کہ تاریخ انگشت بدندان ہے۔ خانوادہء رسول صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم ظلم کے خلاف نا اٹھ کھڑے ہوتے تو آج دینِ اسلام کس حال میں ہوتا؟ ردائیں نا لٹائی جاتیں تو آج ہماری عورتوں کے پردوں کا کیا حشر ہوتا؟
صرف ایک لمحہ، بس ایک ساعت، سوچ کو ایک لمحہ تمام اختلافات سے ہٹا کر ایک نقطے پہ لائیے۔

نواسہ ء رسول صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کیا ایک فرقے، مذہب یا گروہ کے لیے دی؟ اگر ایسا ہوتا تو غیر مسلم کیوں امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے کردار و جرات سے سبق حاصل کر رہے ہوتے۔ اگر کربلا صرف ایک جنگ کا نام ہوتا تو بہنیں، بیٹیاں، بیمار کیوں امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوتے؟ آپ تمام اختلافات ایک طرف رکھیے۔ اگر رونے کا من کرئے تو اتنا ہی کافی ہے رونے کے لیے کہ ان کے گلے پے کند خنجر چلا جو دوشِ نبوت صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کے سوار تھے۔

آپ نے گریہ کرنا ہے تو یہی کافی ہے کہ نواسیء رسول صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کربلا تا شام ردا مانگتی رہیں اور یزیدیت کے نام لیواؤں نے انہیں باغی کی بہن کہا۔ کوئی گریہ کرتا ہے تو وجوہات لاتعداد ہیں، کوئی ماتم کرنا چاہے تو پہلو کئی موجود ہیں ماتم کو، کوئی صرف نذرانہ عقیدت پیش کرنا چاہتا تو نذرانہ عقیدت کے لائق وہی ہستیاں ہیں۔ تمام معاملات کو ایک طرف رکھ دیجیے اور کربلا کو مقصد حیات بنائیے نا کہ مقصد ِ اختلاف۔

کربلا کو زندگی میں نافذ کیجیے، نا کہ بس کربلا کے نام کے بینر بنوائیں اور بس۔
 آج ہم کربلا سے دور ہیں، فکری لحاظ سے، عملی لحاظ سے، نظریاتی لحاظ سے۔اسی لیے ہم پوری دنیا میں خوار ہو رہے ہیں۔ حسیسینت کسی فرقے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ ظلم کے خلاف کلمہء حق کہنے کا نام حسینیت ہے۔حسین رضی اللہ عنہ ایک فرقے یا گروہ کے نہیں ہیں پوری انسانیت کے لیے ہیں۔ حسین رضی اللہ عنہ سب کے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :