جنون کے قیدی

جمعرات 12 نومبر 2020

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

صحافت کو اگر پاکستان میں دیکھا جائے تو یہ انتہائی مشکل پیشہ ہے، بطور پیشہ۔ ایک انتہائی سستا شوق ہے، بطور شوق۔ اور ایک مشکل ترین شعبہ پیشہ وارانہ مہارت کے حوالے سے۔ بطور پیشہ مشکل اس لیے کہ اس شعبے میں آنے سے پہلے اگر آپ پانچ سے دس سال بطور فری لانسر کام کر سکتے ہیں تو اس شعبے میں آئیے ورنہ کوئی لگی بندھی ملازمت کیجیے۔

کیوں کہ اس شعبے میں آپ کو ابتدائی سالوں میں جیب خرچ بھی لگا دینا پڑئے گا۔ اس لیے یہ ایک مشکل ترین پیشہ ہے پاکستان میں۔ انتہائی سستا شوق اسے یوں کہیے کہ آپ کو صحافی بننے کا شوق ہے تو موجودہ حالات میں بس موبائل فون ہونا چاہیے اور بس آپ اپنا شوق پورا کر سکتے ہیں۔ چندبے مقصد سطریں لکھیں۔ مائیکروبلاگنگ کریں۔ اور آپ کی صحافتی رگ اطمینان حاصل کرنا شروع کر دے گی۔

(جاری ہے)

زبان کے علم کے حوالے سے بے شک آپ انتہائی چغد ہوں لیکن چند متنازعہ سطروں کے بعد آپ صحافت کا شوق خوش اسلوبی سے جاری رکھنے کے قابل ہو جائیں گے۔ اورپیشہ وارانہ مہارت کے حوالے سے یہ پاکستان کے چند مشکل ترین شعبہ جات میں اس لیے شمار ہوتا ہے کہ کاروباری مفادات کے ٹکراؤ، صحافتی اسرار ورموز سے نا واقفیت، شہ سرخی، بریکنگ نیوز، صحافتی اخلاقیات سے دور دور تک واسطہ نا رکھنے والی ہستیاں صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے راستے کی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔

تجربے کا متبادل کچھ نہیں ہے لیکن تعلیم کا متبادل بھی ابھی تلاش نہیں کیا جا سکا۔ اس شعبے میں پیشہ وارانہ مہارت کے بجائے پاکستان میں اب تعلقات و مالی پوزیشن زیادہ اہم ہو چکے ہیں۔ آپ نے بیورو چیف بننا ہے، کسی علاقائی اخبار کا چیف رپورٹر بننا ہے، پریس کارڈ کا حصول واحد مقصد ہے تو جیب اجازت دے تو جی آیاں نوں۔ لہذا پاکستان میں صحافت کے شعبے کے حوالے سے صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والا نوجوان، فری لانسنگ صلاحیتوں کا لوہا منوانے والا صحافی، بڑے میڈیا گروپس میں خون پسینہ ایک کرنے والا ورکر بنیادی طور پر اپنے جنون کے قیدی ہیں۔

ان کا جنون صحافت ہے لیکن ان کا واسطہ صحافت کی الف ب نا سمجھنے والوں سے ہے۔
ایک تحریر کا شور ہوا۔ ایک مشہور صحافی کی تحریر ایک معروف قومی روزنامے میں شائع ہوئی۔ وہی تحریر صف اول کی ڈیجیٹل میڈیا میں مقام رکھنے والی ویب سائیٹ پہ بھی اپ لوڈ ہو گئی۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ تحریر حرف بہ حرف اپ لوڈ ہو گئی فرق بس لکھاری کے نام اور تصویر کا تھا۔

معاملہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گیا۔ لے دے ہوئی۔ بعد میں جس مشہور اینکر کے نام کے ساتھ ویب سائیٹ پہ لگا انہوں نے معافی تلافی کی راہ اپنائی۔ معاملے کی گرد بیٹھنا شروع ہونے لگی تو اچانک تحریر کی حقیقی مالک لکھاری نے پھر سے ایک ٹوئیٹ داغ دی۔ جس سے ایک نئے تنازعے نے جنم لیا۔ ریسرچر کا کردار سامنے آیا۔ غلطی کسی تنخواہ دار ریسرچر کے ذمے لگتی دکھائی دینے لگی۔

لیکن یہاں پہ صحافتی بدیانتی کہیے یا پھر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا کہ یہ تاثر سامنے آنا شروع ہو گیا کہ بڑے لکھاری ریسرچرز کی کندھوں پہ رکھ کے بندوق چلاتے ہیں۔ اور ریسرچرز کی محنت پہ اپنے نام سے کالم اخبارات کی زینت بنواتے ہیں۔ فری لانسنگ پاکستان میں ایک عفریت کی شکل اختیار کر چکا ہے جب کہ صحافت کے شعبے میں دیکھیے تو فری لانسنگ کو ایک تجربہ کی سی اہمیت حاصل تھی۔

ایک پندرہ سے بیس ہزار (بسا اوقات اس سے بھی کم) کسی بڑے صحافی کا ریسرچر ہونے کا حق ایسے ادا کرتا ہے کہ کولہو کے بیل کی طرح کام کرتا ہے، کسی بھی مخصوص عنوان پہ ان لکھاری صاحب کو تفصیلات مہیا کرتا ہے اور بعض اوقات تو الفاظ بھی اسی کے ہوتے ہیں۔ بس نام اخبار میں بڑے لکھاری کا آ جاتا ہے۔ مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھا تھا، ایک کالم تحریر کرنے میں جت گئے، معروف اخبار کو بھیجا بھی لیکن حیرت کی انتہا نا رہی کہ کچھ دن بعد من و عن کالم اسی اخبار کے اس وقت کے چیف ایڈیٹر صاحب کے نام سے شائع ہو چکا تھا۔

دوسرے یا تیسرے درجے کے لکھاری ایسے واقعات سہنے کے عادی ہوئے ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ صحافت پاکستان میں ایسا شعبہ ہے جس میں مواقع سے زیادہ جگاڑ چلتا ہے۔آپ تحریر کسی سے لکھوا رہے ہیں، یا کسی عالمی سطح کے موضوع کو ترجمہ کروا کے اپنے نام سے شائع کروا رہے ہیں، کوئی فرق نہیں پڑتا اگرآپ کی مالی و سماجی حیثیت قابل قبول سے کچھ زیادہ ہے۔ چند سال قبل راقم الحروف کو ایک ہمدرد نے آفر کی کہ تم چاہو تو ایک بڑے لکھاری کے انسٹیٹیوٹ کا حصہ بنوا دیتا ہے۔

کام بس ان کے کالم کے لیے ڈیٹا جمع کرنا ہوتا ہے پورا دن۔ اکثر کالم کے الفاظ بھی بیچارے ریسرچر کے ذمے لگا دیے جاتے ہیں۔ کرائے کے لکھاری پاکستان میں بکثرت موجود ہیں۔ ایسے لکھاری جو مالی طور پر مستحکم نہیں لیکن الفاظ کا ایک ذخیرہ ان کے پاس موجود ہے۔ لوگ رابطہ کرتے ہیں یہ بیچارے الفاظ کے ذخیرے میں سے کچھ الفاظ ان کے نام کر ددیتے ہیں۔

نتیجتاً لکھاری کو کچھ مالی وسائل مہیا ہو جاتے ہیں۔ جب کہ ان الفاظ کو اپنی کامیابی کی سیڑھی کوئی اور بنا چکا ہو تاہے۔
صحافت کے شعبے میں جنون کے قیدی ان حالات سے لڑتے صحافیوں کے لیے ایک اور مشکل یہ ہے کہ ایک بڑا کالم نگار بیک وقت کالم نگار بھی ہے، اینکر پرسن بھی ہے، تجزیہ کار بھی ہے، ٹی وی شو ہوسٹ بھی ہے، تفریحی پروگرام کا میزبان بھی ہے، خصوصی نشریات کی ضرورت بھی ہے۔

اب یہاں نوجوان صحافی کہاں فٹ آئے گا۔ کراس میڈیا اونر شپ کا جن ان نوجوان صحافیوں کو بے دردی سے نگل رہا ہو جو مستقبل کے سہانے خواب لیے اس شعبے میں آئے تھے۔ اخبارات ہوں یا ٹی وی چینلز، ویب ٹی وی ہوں یا ویب سائٹس، ہر کوئی توقع کرتا ہے کہ نوجوان صحافی اپنے کالم، ویڈیو رپورٹس، بلاگ، تحریریں، تصاویر انہیں مہیا کریں لیکن جنون کے ان قیدیوں کی محنت کا صلہ معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے معاوضے کی ادائیگی کے بجائے بطور فری لانسنگ بس نام جوڑ دینا ہو۔

اور کبھی کبھی تو تحریر سے نام بھی صاحب تحریر کا حذف کر کے صرف نامہ نگار، خصوصی رپورٹر، نمائندہ لکھنے پہ اکتفا کیا جاتا ہے۔
ایک بڑے لکھاری کی تحریر دوسرا بڑا لکھاری دھڑلے سے اپنے نام کے ساتھ جوڑ لے۔ واویلا ہو تو ملبہ سار ا ریسرچر یا فری لانسر کے سر تھوپ دیا جائے تو پھر عرض اتنی سی ہے کہ آپ اگر ایک ریسرچر کے مرہون منت ہیں میڈیا کے شعبے میں مقام برقرار رکھنے کے لیے تو اس ریسرچر کو لیے ہی جگہ کیوں خالی نہیں کر دیتے؟ کیوں جنون کے ان قیدیوں کے لیے آسانی پیدا کرتے ہوئے کسی مخصوص صحافتی صنف سے منسلک ہو کر باقی جگہ خالی کر کے نوجوانوں کو موقع نہیں دیتے کہ یہ جنون کے قیدی آخر جائیں تو جائیں کہاں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :