
جنون کے قیدی
جمعرات 12 نومبر 2020

سید شاہد عباس
(جاری ہے)
ایک تحریر کا شور ہوا۔ ایک مشہور صحافی کی تحریر ایک معروف قومی روزنامے میں شائع ہوئی۔ وہی تحریر صف اول کی ڈیجیٹل میڈیا میں مقام رکھنے والی ویب سائیٹ پہ بھی اپ لوڈ ہو گئی۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ تحریر حرف بہ حرف اپ لوڈ ہو گئی فرق بس لکھاری کے نام اور تصویر کا تھا۔ معاملہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گیا۔ لے دے ہوئی۔ بعد میں جس مشہور اینکر کے نام کے ساتھ ویب سائیٹ پہ لگا انہوں نے معافی تلافی کی راہ اپنائی۔ معاملے کی گرد بیٹھنا شروع ہونے لگی تو اچانک تحریر کی حقیقی مالک لکھاری نے پھر سے ایک ٹوئیٹ داغ دی۔ جس سے ایک نئے تنازعے نے جنم لیا۔ ریسرچر کا کردار سامنے آیا۔ غلطی کسی تنخواہ دار ریسرچر کے ذمے لگتی دکھائی دینے لگی۔ لیکن یہاں پہ صحافتی بدیانتی کہیے یا پھر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا کہ یہ تاثر سامنے آنا شروع ہو گیا کہ بڑے لکھاری ریسرچرز کی کندھوں پہ رکھ کے بندوق چلاتے ہیں۔ اور ریسرچرز کی محنت پہ اپنے نام سے کالم اخبارات کی زینت بنواتے ہیں۔ فری لانسنگ پاکستان میں ایک عفریت کی شکل اختیار کر چکا ہے جب کہ صحافت کے شعبے میں دیکھیے تو فری لانسنگ کو ایک تجربہ کی سی اہمیت حاصل تھی۔ ایک پندرہ سے بیس ہزار (بسا اوقات اس سے بھی کم) کسی بڑے صحافی کا ریسرچر ہونے کا حق ایسے ادا کرتا ہے کہ کولہو کے بیل کی طرح کام کرتا ہے، کسی بھی مخصوص عنوان پہ ان لکھاری صاحب کو تفصیلات مہیا کرتا ہے اور بعض اوقات تو الفاظ بھی اسی کے ہوتے ہیں۔ بس نام اخبار میں بڑے لکھاری کا آ جاتا ہے۔ مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھا تھا، ایک کالم تحریر کرنے میں جت گئے، معروف اخبار کو بھیجا بھی لیکن حیرت کی انتہا نا رہی کہ کچھ دن بعد من و عن کالم اسی اخبار کے اس وقت کے چیف ایڈیٹر صاحب کے نام سے شائع ہو چکا تھا۔ دوسرے یا تیسرے درجے کے لکھاری ایسے واقعات سہنے کے عادی ہوئے ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ صحافت پاکستان میں ایسا شعبہ ہے جس میں مواقع سے زیادہ جگاڑ چلتا ہے۔آپ تحریر کسی سے لکھوا رہے ہیں، یا کسی عالمی سطح کے موضوع کو ترجمہ کروا کے اپنے نام سے شائع کروا رہے ہیں، کوئی فرق نہیں پڑتا اگرآپ کی مالی و سماجی حیثیت قابل قبول سے کچھ زیادہ ہے۔ چند سال قبل راقم الحروف کو ایک ہمدرد نے آفر کی کہ تم چاہو تو ایک بڑے لکھاری کے انسٹیٹیوٹ کا حصہ بنوا دیتا ہے۔ کام بس ان کے کالم کے لیے ڈیٹا جمع کرنا ہوتا ہے پورا دن۔ اکثر کالم کے الفاظ بھی بیچارے ریسرچر کے ذمے لگا دیے جاتے ہیں۔ کرائے کے لکھاری پاکستان میں بکثرت موجود ہیں۔ ایسے لکھاری جو مالی طور پر مستحکم نہیں لیکن الفاظ کا ایک ذخیرہ ان کے پاس موجود ہے۔ لوگ رابطہ کرتے ہیں یہ بیچارے الفاظ کے ذخیرے میں سے کچھ الفاظ ان کے نام کر ددیتے ہیں۔ نتیجتاً لکھاری کو کچھ مالی وسائل مہیا ہو جاتے ہیں۔ جب کہ ان الفاظ کو اپنی کامیابی کی سیڑھی کوئی اور بنا چکا ہو تاہے۔
صحافت کے شعبے میں جنون کے قیدی ان حالات سے لڑتے صحافیوں کے لیے ایک اور مشکل یہ ہے کہ ایک بڑا کالم نگار بیک وقت کالم نگار بھی ہے، اینکر پرسن بھی ہے، تجزیہ کار بھی ہے، ٹی وی شو ہوسٹ بھی ہے، تفریحی پروگرام کا میزبان بھی ہے، خصوصی نشریات کی ضرورت بھی ہے۔ اب یہاں نوجوان صحافی کہاں فٹ آئے گا۔ کراس میڈیا اونر شپ کا جن ان نوجوان صحافیوں کو بے دردی سے نگل رہا ہو جو مستقبل کے سہانے خواب لیے اس شعبے میں آئے تھے۔ اخبارات ہوں یا ٹی وی چینلز، ویب ٹی وی ہوں یا ویب سائٹس، ہر کوئی توقع کرتا ہے کہ نوجوان صحافی اپنے کالم، ویڈیو رپورٹس، بلاگ، تحریریں، تصاویر انہیں مہیا کریں لیکن جنون کے ان قیدیوں کی محنت کا صلہ معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے معاوضے کی ادائیگی کے بجائے بطور فری لانسنگ بس نام جوڑ دینا ہو۔ اور کبھی کبھی تو تحریر سے نام بھی صاحب تحریر کا حذف کر کے صرف نامہ نگار، خصوصی رپورٹر، نمائندہ لکھنے پہ اکتفا کیا جاتا ہے۔
ایک بڑے لکھاری کی تحریر دوسرا بڑا لکھاری دھڑلے سے اپنے نام کے ساتھ جوڑ لے۔ واویلا ہو تو ملبہ سار ا ریسرچر یا فری لانسر کے سر تھوپ دیا جائے تو پھر عرض اتنی سی ہے کہ آپ اگر ایک ریسرچر کے مرہون منت ہیں میڈیا کے شعبے میں مقام برقرار رکھنے کے لیے تو اس ریسرچر کو لیے ہی جگہ کیوں خالی نہیں کر دیتے؟ کیوں جنون کے ان قیدیوں کے لیے آسانی پیدا کرتے ہوئے کسی مخصوص صحافتی صنف سے منسلک ہو کر باقی جگہ خالی کر کے نوجوانوں کو موقع نہیں دیتے کہ یہ جنون کے قیدی آخر جائیں تو جائیں کہاں؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.