ضمیر فروش

ہفتہ 3 اگست 2019

Syed Touseef Abid

سید توصیف عابد

مارچ کا مہینہ تھا سینٹ الیکشن کی دھوم تھی اسوقت کی حکومت شدید مشکلات سے دو چار تھی سینیٹرز کی خاصی تعداد ہونے کے باوجود سینٹ چیئرمین لانے میں ناکام رہی اور پیپلزپارٹی نے تحریک انصاف کی اتحادی فاؤنڈیشن پر بلوچستان کا پلر کھڑا کر دیا ،وقت بدلا حالات بدلے عام انتخابات ہوئے تبدیلی نے انگڑائی لی عوام نے اعتماد کیا تحریک انصاف کے وعدوں کی وفا کا وقت آیا پی ٹی آئی برسر اقتدار آگئی فرشتوں کی کابینہ بنی اور حکومت چوروں کو پکڑنے لگی یہ تمام چور پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ میں تھے کئی لوگوں کے کرپشن کیس کھلے نت نئی کرپشن کی داستانیں سننے کو ملیں بھینس چوری کے جیسے مقدمات ہونے لگے کئی ایک منشیات کے سرغنہ ٹھہرے کچھ نے کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی کی اور دہشتگردوں کی طرح گرفتار ہوئے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ گرفتاریوں کی خبر کوئی ایک فرشتہ لیک کر دیتا اور پھر ویسا ہی ہوتا یہ کابینہ ایک ہی وقت میں بہت سے کام کرنے لگی احتساب کرنا چوروں کو بے نقاب کرنا عالمی منشیات فروشوں کو بے نقاب کرنا حکومت کرنا اور ساتھ اپوزیشن بھی یہ سب کام ایک حکومت کر رہی تھی اور پارٹ ٹائم رپورٹنگ بھی کرتی اور خبریں بھی بریک کرتی رپوٹرز پریشان تھے کہ خبر بریک کرنا ان کا کام تھا وہ چھن گیا شاید یہی وجہ تھی کہ میڈیا کو محدود کرتے جا رہے تھے مگر سب سے کمزور حکومت کے مخالف میں سب سے مضبوط اپوزیشن ہوتے ہوئے بھی حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں ناکام رہی۔

(جاری ہے)

 
بہر حال پی ٹی آئی کو حکومت میں آئے ایک سال ہوگیا تھا اپوزیشن کا اتحاد بنا اور اس کا پہلا ٹارگٹ چیئرمین سینیٹ تھے اور اسی خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے اپوزیشن اتحاد نے چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی تحریک انصاف کو یہ ادا پسند نہ آئی نتیجتاً حکومت ڈپٹی چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد لے آئی، وقت گزرتا گیا ظہر انے ہوئے عشائیے ہوئے خفیہ ملاقاتیں ہوئی اور گزرتے گزرتے یکم اگست کا سورج طلوع ہوا کارروائی کا آغاز ہوا عدم اعتماد کی قرارداد جمع ہوئی،ااپوزیشن اتحاد کہ 64ارکان نے ہاتھ کھڑا کیا اپنے ضمیر کے ساتھ اور تحریک عدم اعتماد پر اعتماد کیا گھڑی کی سوئی چلتی گئی ابھی دس بارہ منٹ ہی گزرے تھے کہ ووٹنگ کا عمل شروع ہوا اور سب دیکھتے رہ گے کہ وہ لوگ جن کے ضمیر نے ہاتھ کھڑا کرنے پہ مجبور کیا اسی ہاتھ سے ضمیر کے خلاف ووٹ دے دیا یہ کیسے ہو گیا کیا یہ عام انتخابات کا پیغام نہیں دے رہے کہ کیسے آر ٹی ایس نے کام چھوڑ دیا کیا یہ بات یقیناً حقیقت ثابت ہو رہی ہے کہ الیکشن سے زیادہ سلیکشن پر زور ہے آپ کے جانے کہ بعد یہ بات کھل کہ آئے گی وقت گزرتا ہے اور گزر بھی رہا ہے۔

 تاریخ بھی لکھی جا چکی ہے یہ اچھی مثال قائم نہیں ہوئی اب آتے ہیں ان زندہ ضمیر لوگوں کی طرف کیا ان کا ضمیر زندہ ہے یقناً مر چکا اور اگر زندہ ہے تو سودا کیا ہے ضمیر بیچا ہے یہ وہی لوگ ہیں جو میر جعفر اور صادق بنے وہی ہیں جن کی وجہ سے ہم غلامی کی زنجیر میں جکڑے گئے یہ زندہ ضمیر نہیں ضمیر فروش ہیں آج کروڑوں میں بکے کل چند ٹکڑوں پر بھی بک جائیں گے ایک دفعہ بکے ہیں بار بار بکیں گے شاہد یہی وہ بدنسل گھوڑے تھے جن کو نسل والا بنا کر بیچا جاتا تھا اور یہ عمل ہارس ٹریڈنگ کہلایا اور آج کے جدید دور میں ہمیں پرانے دور کی کہاوت سمجھ آگئی۔
حقیت تو یہ ہے کہ یہاں کوئی جمہوریت ہے ہی نہیں اور آج اس پر ۴۱ ارکان نے مہر ثبت کی ہے جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :