خزاں رسیدہ معاشرہ

جمعرات 2 جنوری 2020

Tahir Ayub Janjuah

طاہر ایوب جنجوعہ

اس پرفتن دور میں جہاں ملک و ملت کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر اور بہت سی،مشکلات و مصائب اور چیلنجز کا سامنا ہے ،وہیں ایک اہم اور بڑا مسئلہ معاشرتی اصلاح،اخلاق سازی،کردار سازی، اور شخصی تربیت سازی کے فقدان کا بھی ہے ۔
 جس طرح کسی بھی جسم و بدن کی زیبائش و آرائش اور خوش نمائی کے لئے اس کی تراش خراش اور کانٹ چھانٹ کو ضروری سمجھا جاتا ہے، بالکل اسی طرح افراد کی اجتماعی معاشرت کے وجود اور پیکر کو بقاؤ دوام،اور اس کی زیب و زینت کے لئے اس کی قطع و برید اور وضح قطع بہت ضروری ہے ۔

اگرچہ مذہبی،سیاسی، اور گروہی سطح پر تو اپنے اپنے نظریات،اعتقادات،موقف کی وسعت اور پھیلاؤ اور ترویج و اشاعت کے لئے ہر ممکن کوششیں کی جاتی ہیں،لیکن بحیثیت اجتماعی معاشرہ ہمارا اخلاق و سماجی استوار سنوارنے اور سدھارنے پر بہت کم توجہ رجحان اور میلان ہے -
 یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایک مہذب اور تہذیب یافتہ طرزِ معاشرت سے ہی قومیں سیاسی و سماجی اور معاشی سطح پر نقطہ عروج تک پہنچتی ہیں جب کہ بحیثیت مسلمان ہمارے لئے اس بات کو سمجھنااور بھی آسان، سہل اور سادہ ہے کہ ہمارے اندازِ معاشرت، بودو باش اور رہن سہن کے اصولوں کا تعین 1400 سے پہلے ہی کر دیا گیا تھا- 
لیکن بدقسمتی سے آج ہم بحیثیت قوم جس معاشرتی سسٹم کا حصہ ہیں،وہ بوسیدگی،انحطاط اور زوال پذیری کی انتہائی حدوں کو چھو رہا ہے، اخلاق و اقدار کی تنزلی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے درمیان زینب و فرشتہ جیسی معصوم کلیاں اور عمران جیسے وحشی درندے ہر گاؤں اور ہر قریے میں جنم لے رہے ہیں۔

(جاری ہے)

شاہزیب خان،نقیب اللہ محسود اور سانحہ ساہیوال جیسے ہزاروں مقتولین کے لئے ہمارے پاس سوائے اشک ریزی و گریہ زاری کے کچھ بھی تو موجود نہیں...!!
 ہزاروں معصوم اور بے گناہ انصاف کی راہیں تکتے تکتے گل سڑ چکے ہیں، پیٹ کی خاطر بلکتے بچے،بوڑھے اور خودکشیاں کرتے نوجوان اجتماعی بے حسی اور بے چارگی کا عملی نمونہ بن چکے ہیں - معاشرتی سطح پر پھیلی گمراہی، ضلالت فتنہ،فساد،فسق و فجور، معاشرتی بے راہ روی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

 گلیوں محلوں اور جگہ جگہ پر ہوتے لڑائی جھگڑے، گالم گلوچ، ظلم و زیادتی، کینہ، حسد، حق تلفی اور مفاد پرستی کی داستانیں چیخ چیخ کر ہماری معاشرتی زبوں حالی کی داستانیں سنا رہی ہیں - رشوت خوری، سود و حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ،خوشامد، حرص، طمع، لالچ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی جیسی بیماریاں ہماری معاشرتی رگوں میں رچ بس چکی ہیں۔

 منشیات کے بازار، ہوس کے اڈے، شراب خانے، جوا، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارت گری،زنا کاری، جیسی بلائیں ہمارے معاشرتی وجود کو بے دردی سے تہہ تیغ کر رہی ہیں- غرض کہ اس وقت اور اس دور میں آخر وہ کون سی اخلاقی اور سماجی برائی،اور بیماری ہے جو ہمارے اس بیمار اور لاغر معاشرے کی رگوں میں سرائیت نہیں کر چکی؟ دھوکہ دہی اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی قسم ہے جو اس معاشرے میں اب تک ایجاد نہیں ہو سکی؟
 تشدد، تعصّب، عصبیت، مسلکیت،علاقائیت کا آخر کون سا عفریت ہے جو ہمارے سماج کی چار دیوراری کو دیمک کی طرح نہیں چاٹ رہا؟ ہمارے اس معاشرتی سسٹم اور اجتماعی رہن سہن کے انداز و چلن کی بدحالی کی ایک لمبی فہرست ہے، جو خدائے بزرگ و برتر کے قہر وغضب کو دعوت دے رہی ہے- 
ہمارے اس خزاں رسیدہ معاشرے میں اخلاقیات،تہذیب و تمدن،تربیت و تادیب کے آثار کہیں دور دور تک نہیں پائے جاتے،اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ ہم بحیثیت قوم مادیت پرستی میں لتھڑ چکے ہیں -ہمیں دنیاوی سٹیٹس، جاہ و حشمت، منصب و جلال،شہرت و ناموری کی ہوس نے اندھا کر کے رکھ دیا ہے - ہم بحیثیت قوم اخلاقیات،تہذیب و تمدن، اورتربیت و آداب کی قدر ومنزلت کا شعور اور احساس کھو چکے ہیں -
ہمارے بڑے بڑے سردار، لیڈران، راہنما،پیشرو،دانشور،سکالرز، تعلیم دان،سیاست دان، مولانا حضرات،اپنا اپنا مدعا، بیانیہ، اندازِ فکر،نقطہ نظر،عقائد و نظریات، وغیرہ کا چورن تو بیچتے نظر آتے ہیں،لیکن اجتماعی اور مہذب معاشرت کا شعور پیدا کرنے کی کاوشوں سے کوسوں دور بھاگتے دکھائی دیتے ہیں - 
شعور،اخلاقی اقدار اور اعلیٰ طرز معاشرت کے قواعد و ضوابط پر ہمارا دھیان اور توجہ نہ ہونے کے برابر ہے، یہی وجہ ہے کہ آج 70 سال گزرنے کے باوجود بھی ہم اب تک زیر زبر کی گردان سے باہر نہیں نکل سکے -جو بنیادی باتیں عمل کی تھیں وہ ہمارے لئے صرف پڑھنے اور سننے کی حد تک محدود کر دی گئی ہیں-
آج ہمیں ذاتی مفادات،سیاسی و مذہبی نظریات، اور گروہی و علاقائی تشخص سے بالاتر ہو کر ایک مضبوط، منظم، موئدب اور متمدن اسلامی معاشرت کو فروغ دینے کے لئے اٹھ کھڑا ہونا ہو گا -ہمیں اپنے اجتماعی شعور،طرزِ فکر،عقائد، دساتیر رسوم و رواج کی تصحیح اور اصلاح اور تطہیر کے لئے ہر ممکن اور غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے ۔

اگر اب بھی ہم نے اپنے اس خزاں رسیدہ طرز معاشرت پر دھیان نہ دیا تو وہ وقت دور نہیں جب حالات کے منہ زور تھپیڑے ہمارے معاشرتی سسٹم کو تہس نہس کر کے رکھ دیں گے،جو آنے والی نسلوں کے لئے سخت مصائب و آفات اور وبال کا باعث ہو گا- اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسی خزاں رسیدہ طرزِ معاشرت قوموں کی غلامی کا پیشہ خیمہ ہوا کرتی ہے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :