"سعودی عرب سے اخوت و بھائی چارے کا رشتہ کمزور نہ ہونے پائے"

بدھ 26 اگست 2020

Tahir Ayub Janjuah

طاہر ایوب جنجوعہ

کسی گاؤں میں ایک سنار رہتا تھا ۔ وہ نہایت ایمان دار اور اپنے کام میں بخوبی ماہر تھا۔ وہ ہر کسی سے مہذب و بااخلاق انداز سے پیش آتا, اور سبھی سے اپنے تعلقات سنوار کر رکھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کا حلقہ احباب کافی وسیع تھا, اور گاؤں کے اندر اور باہر ہر جگہ اسے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔
سنار کا یہ رہن سہن اور اچھا کردار عقل و شعور اور فہم و فراست پر مبنی تھا۔

اس کا پیشہ شاید اسی ماحول کا متقاضی تھا, کیونکہ اس کے پاس مال و دولت کے انبار تھے۔ اور وہ جانتا تھا کہ اس کے آس پاس چور اچکے, لٹیرے اور بدمعاش ہر وقت للچائی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتے رہتے ہیں۔ ایسے میں وہ اپنے آس پاس گاؤں کے چودھریوں, نمبرداروں اور راٹھوں سے بنا کر رکھتا تھا اور وقتاً فوقتا ً انہیں تحفے تحائف سے نواز کر ان کی آشیر باد لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔

(جاری ہے)

کیونکہ وہ جانتا تھا کہ  اکثر لوٹنے والوں کی پرورش انہی وڈیروں اور جاگیرداروں کے ڈیروں پر ہی ہوتی ہے ۔ ایسے میں اپنی متاع حیات کی حفاظت و چوکیداری میں کچھ خرچ کرنے کا سودا زیادہ مہنگا نہیں تھا۔
بدلے میں سنار کا کاروبار خوب پھلتا پھولتا رہا, اور وہ اطمینان اور بے فکری سے چین کی نیند سوتا۔ وہ  اس حد تک سخی تھا کہ اس نے اپنے بھائیوں عزیزوں اور دور و نزدیک کے تمام رشتے داروں کو بھی خوب نوازا, اور مشکل کی ہر گھڑی میں ان کے ننگے سر پر چادر اوڑھنے کا فریضہ بھی سرانجام دیتا رہا۔

  شاید اسی وجہ سے اسے اپنی بقاء اور سلامتی کی زیادہ فکر بھی نہیں تھی۔  اسے اپنے بھائیوں کے مضبوط اور توانا بازؤں کا بڑا مان تھا ۔
 لیکن وہ کیا ہے کہ نیکی اور بدی کی مناقشت اور تکرار تو روز ازل سے ہی ہے۔ خلاف فطرت ایسا کیسے ہو سکتا ہے, کہ دونوں میں سے کسی ایک کو حیات جاوداں ملے۔ سنار بھی آخر انسان تھا, اور بدی کے علمبردار اس کی تاک میں....اس کی تمام تر بصیرت افروزی اور خرد مندی کے باوجود کچھ چوھدریوں کو اس کی حیثیت سے اندر ہی اندر مروڑ اٹھتے تھے۔

لیکن وہ سنار کی صلح جوئی اور امن پسند رویے کی وجہ سے کھل کر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ فطرت سے مجبور ہو کر پس پردہ سنار کی کچھ بشری غلطیوں کے جواز پر بدگمانیوں کے ہمیشہ جال بنتے رہتے, تا کہ وہ کمزور ہو  اور  اس کے مال و اسباب کو  لوٹنے کی کوئی راہ ہموار ہو۔
 کچھ کہانیوں کے انجام دیر سے ہوا کرتے ہیں۔ اس کہانی کا اختتام بھی ابھی باقی ہے۔

جس کا قیاس یا گمان فی الوقت مشکل ہے۔ لیکن اتنا طے ہے کہ اس گاؤں نما دنیا میں سرزمین حجاز کی مثال ایسے ایک سنار کی سی ہی ہے, جو دنیاوی مال و دولت اور  زر و جواہر کے ساتھ ساتھ اپنے دینی و علمی اور سب سے بڑھ کر اسلامی تہذیبی, ثقافتی ورثے سے بھی مالا مال ہے۔ اور یقیناً اس پاکیزہ سرزمین کا نظم و نسق چلانے والوں نے اپنی فہم و فراست, اور بے مثل حکمت و دانش سے دنیا کے چوھدریوں اور وڈیروں سے آج تک بنا کر رکھی ہوئی ہے۔

اور جس کے بدلے میں انہوں نے نہ صرف اپنی معاشی و اقتصادی راہیں ہموار کیں, بلکہ وہ امت مسلمہ کی مضبوط  نمائندگی کا ہر طرح سے حق بھی ادا کرتے چلے آئے ہیں, اور انہوں نے اپنے برادر اسلامی ممالک کے تجارتی, انتظامی, اور دفاعی بازؤں کو بھی مضبوط کرنے میں آج تک کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا ۔
   بلاشبہ یہ امر مسلّم ہے کہ سعودی عرب نے امت مسلمہ کے لئے ہر کڑے وقت میں ہر ممکن خدمات سر انجام دی ہیں ۔

جو تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔ خطہ حجاز کے فرماں رواؤں نے ہمیشہ  برادر اسلامی  ممالک کو اپنے وسائل کے بل بوتے پر اسلامی طرز حیات، جدید علوم وفنون کی خدمات اور مختلف شعبوں میں تعمیر و ترقی کے ہر ممکن مواقع فراہم کیے۔ اسی طرح خدمت خلق کے لئے بھی انہوں نے نیم سرکاری وغیر سرکاری تنظیمیں قائم کیں جن میں "رابطہ عالم اسلامی" مسلمانوں کی ایک بڑی بین الاقوامی تنظیم کا درجہ رکھتی ہے ۔

جس کا مقصد مسلمانوں میں یکجہتی پیدا کرنا، اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینا اور اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کو دور کرنا اور گمراہ کن عقائد و نظریات کی نفی کرنا ہے۔  
 لیکن آج ایک بار پھر نیکی و بدی کی علمبردار قوتیں باہم گتھم گتھا ہیں۔ اور نت نئے فتائن جنم لے رہے ہیں۔ سعودی عریبیہ کی پاکیزہ  اور مقدس سرزمین کے خلاف آئے روز نئی سے نئی ہرزہ سرائی سننے کو ملتی ہے۔

کبھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی  بے پرکی اڑائی جاتی ہے, تو کبھی یو اے ای کے ایک غلط اور بے ہودہ قدم کو سعودی عرب کے کھاتے میں ڈال کر گالم گلوچ اور دشنام کا بازار گرم کیا جا رہا ہے۔ اور سوشل میڈیا پر تو چنگے بھلے سمجھ بوجھ رکھنے والے بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہو کر سعودی حکومت پر لعن طعن کرتے نظر آتے ہیں۔   کچھ دن پہلے سعودی حکومت کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک منظم مہم بھی چلائی جاتی رہی, جس میں ان کے بے ہودہ کارٹونز اور شکلیں بگاڑ کر آوازے کسنے اور گالم گلوچ جیسے افعال بد شامل ہیں۔


   اگرچہ موجودہ جدید جمہوری دور میں سعودی شاہی ںظام سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اور یقیناً سعودی شاہی خاندان پچھلے کچھ عرصے سے اپنے کچھ متنازعہ فیصلوں کے باعث تنقید کی زد میں بھی ہے۔ لیکن ان معمولی اور جزوی اختلافات کا یہ مطلب نہیں کہ اس پاکیزہ سرزمین کے خلاف اغیار کی سازشوں کا حصہ بنا جائے, اور ان کے پھیلائے ہوئے جالوں میں آ کر ان بدخواہوں کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی ملک اپنی خارجہ پالیسی کے معاملے میں بالکل آزاد ہوتا ہے, اور یقیناً ہر چھوٹا بڑا ملک بیرونی دنیا سے اپنے تعلقات اپنے جغرافیائی, نظریاتی, سماجی, اقتصادی اور اندرونی و بیرونی چیلنجز کی بنیادوں پر ہی استوار کرتا ہے۔ ہم اگر اپنی بات کریں تو مشرف صاحب کے دور میں کیا ہم نے "سب سے پہلے پاکستان"  کا نعرہ نہیں  لگایا تھا ؟ اور جب ہمارے ہوائی اڈوں سے امریکن B- 52 طیارے اڑ کر ہمارے ہی افغانی مسلمان بھائیوں کے چیتھڑے اڑاتے تھے, تو کیا ہم نے اپنی اس مثبت خارجہ پالیسی کا دفاع نہیں کیا تھا؟ یقیناً کیا تھا, تو ایسے ہی سعودی فرماں رواؤں کے یورپی ممالک سے تعلقات کہ جن سے امت مسلمہ کو کچھ نقصان بھی نہیں, اور نہ ہی ان کی سرزمین آج تک کسی مسلمان ملک کے خلاف استعمال ہوئی اس پر یہ بے جا تنقید لعن طعن اور خواہ مخواہ کی ہرزہ سرائی کیوں۔

۔۔یقینا ً یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ایک ایسا ملک کہ جو امت مسلمہ کے روحانی جذبات و احساسات کا مرکز ہے۔ اور جو ہمہ وقت تنکوں کی طرح بکھری امت کو اکٹھا کرنے کی فکر میں رہتا ہے, اس کے خلاف تعصبات اور نفرتوں پر مبنی اس بے بنیاد پروپیگنڈے کو ہوا دی جا رہی ہے, اور دونوں برادر ممالک کے درمیان عشروں پر محیط دوستانہ فضا کو  ایسے فضول اور خواہ مخواہ کے  پراپیگنڈوں سے آلودہ کیا جا رہا ہے۔


 یہاں حکومتی سطح پر بھی نہایت غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ پچھلے دنوں ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ایک ایسا متنازعہ اور غیر ذمہ دارانہ بیان دیا, کہ جس کے بعد دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان بداعتمادی کے سیاہ بادل منڈلانا شروع ہو گئے تھے, لیکن وہ تو بھلا ہو ہمارے عسکری اداروں کا کہ جن کی بروقت فہم و دانش کے باعث یہ معاملہ مزید آگے نہ بڑھ پایا ۔

بحرحال جو بھی ہو ہمیں اپنے تمام اپنے برادر اسلامی ممالک کے بارے ایسے تمام شکوک و شبہات کو دلوں میں پالنے سے گریز کرنا ہو گا, اور ہر طرح کے مسلکی اختلافات سے بالاتر رہ کر مثبت سوچ کو اپنانا ہو گا, کیونکہ سعودی عرب سے ہمارا صرف دوستی اور وفا کا ہی نہیں بلکہ اسلامی اخوت اور بھائی چارے کا بھی رشتہ ہے۔ اور ہمیں اسے پہلے سے مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :