عبدالبر ایک شخصیت نہیں ادارہ ہے!!!!

جمعرات 4 مارچ 2021

Umair Ali Anjum

عمیر علی انجم

اسے ہم اپنے ملک کی بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ جب بھی یہاں کوئی شخصیت کسی ادارے کی بہتری کے لیے بے لوث طریقے سے کام کرنا شروع کرتی ہے تو اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔۔۔ہمارا ماضی اور حال اس طرح کے واقعات سے بھرا پڑا ہے ۔۔۔سمجھ میں نہیں آتا کہ ان حالات میں انسان کیا کرے ۔۔۔اگر کوئی شخص امید بن کر آپ کے سامنے آیا ہے تو آپ کیوں اس کی راہ میں کانٹیں بچھانا شروع کردیتے ہیں ۔

۔۔فشنگ کا شعبہ ترقی یافتہ ممالک کی معیشت میں اہم ترین کردار ادا کررہا ہے ۔ان ممالک نے اس شعبے کو انتہائی جدیدخطوط پر استوار کیا ہے اور ان کے لیے مچھلی اب سونے کی شکل اختیار کرچکی ہے ۔پاکستان جس کو قدرت نے ایک وسیع رقبے پر سمندر سے نوازا ہے اس نعمت سے اب تک و ہ فوائد حاصل نہیں کرسکا ہے ،جس طرح اسے کرنا چاہیے تھا ۔

(جاری ہے)

ماضی میں فشنگ کے شعبے کو بالکل ہی نظرانداز کردیا گیا اور مچھلی کو کچرے کی شکل دے دی گئی ۔

ساحلی پٹی پر فشنگ کا مینڈیٹ فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی کے پاس تھا لیکن یہ ایک برائے نام ادارہ تھا ۔ماہی گیروں کی حالت زار انتہائی خستہ تھی ۔ایسے حالات میں پاکستان پیپلزپارٹی نے تین سال قبل معروف بزنس مین حافظ عبدالبر کو فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی کا چیئرمین مقرر کیا اور ان کو مکمل اختیار دیا کہ وہ ادارے کی بہتری کے لیے بھرپور اقدامات کریں ۔

حافظ عبدالبر نے سب سے پہلے بنیادی انفراسٹرکچر کی جانب توجہ دی ۔سڑکوں کی تعمیر کی گئی ۔کوشش کی گئی کہ ماہی گیروں کو ان کا جائز حق ملے اور ان کو یہ احساس ہو کہ وہ اب محفوظ ہاتھوں میں ہیں ۔
حافظ عبدالبر کے دور میں ادارے کو سیاست سے پاک کیا گیا ۔فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی جو گینگ وار کے حوالے سے ایک منفی شناخت رکھتا تھا اس کو ایک پروفیشنل ادارے میں تبدیل کرنے کا عمل شروع کیا گیا ۔

میرٹ پرنوکریاں فراہم کی گئیں اور اس بات کی کوشش کی گئی حق دار کو اس کا حق ملے ۔ادارے کو آئی ایس او سرٹیفکیشن کی جانب لے جانے کا عمل شروع ہوا ،جس کی ماضی میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا ۔اس کے علاوہ پہلی مرتبہ دنیا کے دیگر ممالک سے پاکستان میں فشنگ کے شعبے کو جدید خطوط پر استوا ر کرنے کے لیے معاہدے کیے گئے ۔ایک جانب سے چیئرمین فشری  کے انقلابی اقدامات تھے تو  دوسری جانب چند افراد  سے ایک صاف ستھری شخصیت برداشت نہیں ہورہی تھی ۔

وہ دوبارہ فشری کو گینگ وار کا ایک اکھاڑہ بنانا چاہتے تھے ۔ان لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہورہی تھی کہ کیسے ایک بے نام ادارہ ایک پروفیشنل ادارے میں تبدیل ہورہا ہے اور اگر ایسا ہوگیا تو ان کی سیاسی دکانوں کو تالہ لگ سکتا ہے ۔
یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ اپنے چندذاتی مفادات کے لیے کچھ لوگ ماہی گیروں کے مستقبل سے کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں ۔

ان ناعاقبت اندیش لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ حافظ عبدالبر کسی شخصیت کا نام نہیں تھا ۔۔۔۔۔وہ ماہی گیروں کا ان داتا تھا ۔۔۔۔۔اس کو کسی صلے کی تمنا تھی اور نہ وہ کسی سے داد ستائش چاہتا تھا ۔۔۔۔اس کے سامنے ایک مقصد تھا ۔۔۔۔۔اس نے منزل کا تعین کرلیا تھا ۔۔۔لیکن اس کے خلاف ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے کہ وہ یہ سب کچھ برداشت نہیں کرسکا ۔

۔۔۔وہ فشری میں کمانے کے لیے نہیں بلکہ اس کو بنانے کے لیے آیا تھا ۔۔اور جب اس نے دیکھا کہ مختلف مافیاز اس کو کام کرنے نہیں دے رہی ہیں تو اس نے وہی کیا جو ان حالات میں کوئی عزت دار شخص کرسکتا ہے ۔۔۔۔۔حافظ عبدالبر نے استعفیٰ تو دے دیا ہے لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت کو بھی دیکھنا چاہیے کہ اس سے ماہی گیروں کو کتنا نقصان ہوسکتا ہے ۔۔۔۔پارٹی قیادت یہ بھی دیکھے کہ وہ کون سی شخصیات ہیں جن کے لیے حافظ عبدالبر کی دیانت دار شخصیت ایک رکاوٹ تھی ۔۔۔۔حافظ عبدالبر جیسی شخصیات پاکستان کا مستقبل ہیں اور ان جیسی شخصیات کی راہ میں روڑے اٹکانے والے ملک کے خیر خواہ ہر گز نہیں ہوسکتے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :