ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ایک نہیں دو چار اور ہوتے!!!!

منگل 9 مارچ 2021

Umair Ali Anjum

عمیر علی انجم

سینیٹ انتخابات میں اپوزیشن کے مشترکہ اتحادنے حکمران جماعت پی ٹی آئی کو شدید دھچکا پہنچایا۔۔۔تاہم وزیراعظم عمران خان نے بے یقینی سے یقین کے سفرکاتعین کیا،اوراپنی جماعت کے ارکان پارلیمنٹ سمیت اتحادیوں سے بھی اعتماد کاووٹ مانگ لیا،خیر یہ عمران خان کاخوف تھا یا انھوں نے ایمپائر سے ریویئومانگایہ ان کاذاتی فیصلہ تھا،اعتمادکاووٹ ملتے ہی پی ٹی آئی اور ن لیگ کے رہنماؤں اورکارکنان نے جس طرح جمہوریت کا مظاہرہ کیا وہ بھی ایک قابل غورعمل تھا،شایدان جماعتوں کے منشورکے مطابق جمہوری معاشرے کوگالیوں،جوتوں،اوردھکوں سے ہی پروان چڑھایاجاتاہوگا،واقفان حال بتاتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اورپی ٹی آئی کے کارکنان کی زبان اورباڈی لینگویج کودیکھ کرایسا محسوس ہوتاتھاکہ یہ کوئی بھولوکااکھاڑہ ہے اورابھی کبڈی میں دونوں فریقین میں سے کسی ایک  کوزمین چٹانی ہے،بہرحال بات کسی اورسمت نکل گئی۔

(جاری ہے)

۔۔۔گزشتہ روز پوری قوم کی طرح میری بھی نگاہیں ٹی وی پر جمی ہوئی تھیں کہ اچانک عمران خان کی ہدایت پرپیش کردہ اعتماد کی تحریک پرووٹنگ کااختتام ہوا۔۔۔کرکٹ میچ کی طرح جوں ہی چائے کاوقفہ ہوا.۔۔تومیری توجہ  دیگرجانب بھی مبذول ہوگئی کچھ ہی دیرمیں ارکان پارلیمنٹ کی ایوان میں واپسی ہوئی اور پھر وزیر اعظم کی ڈھائی سالہ کامیابی کے قصیدے سنانے کی باری آگئی۔

۔۔اب میری دلچسپی دم توڑ رہی تھی کہ اچانک اسپیکر اسدقیصر نے ایم کیوایم کے رہنماء اوررکن قومی اسمبلی خالدمقبول کوبات کرنے کے لئے کہا۔۔۔۔خالدمقبول صدیقی نے جوں ہی گفتگو کاآغاز کیاتو میں ششدررہ گیا۔۔۔اس سے قبل شاید مختلف مقامات پراپنے مفادات کے حصول لے لئے تویہ جماعت بات کرتی ملی مگرایوان میں برسراقتدارجماعتوں سے یوں آنکھ نہیں ملاپائی وگرنا۔

۔۔شہری سندھ کے مسائل جیسے کوٹہ سسٹم،شہری دیہی تفریق۔۔۔تعلیمی معیاروغیرہ جو متحدہ کی وجہ بنیاد بھی تھے اب تک حل یوچکے ہوتے۔ یہاں آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایم کیوایم اپنے سیاسی سفرمیں ایک بھی ٹارگٹ پوراکرنے سے قاصررہی۔۔۔حد یہ کہ الطافی نظریئے کے یہ مٹھی بھر شاہسوار جواردوبولنے والوں کوکسی لونڈی غلام سے کم ناسمجھتے تھے اپنے محسن سابق صدرپرویزمشرف سے بھی مفادات کےعلاوہ کچھ حاصل ناکرسکے۔

۔۔اوراختتام پر جوزبان پرویز مشرف کے لئے استعمال کی گئی وہ بھی سب ہی کے سامنے ہے۔۔۔بہرحال اسمبلی فلورپرخالد مقبول صدیقی نے گفتگو کے آغازمیں وزیراعظم کومبارکباد دی،اور عمران خان سے مخاطب ہوکر جس طرح کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کامقدمہ پیش کیاوہ ناصرف حیران کن تھابلکہ ایسامحسوس ہوتاتھا کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی پالیسی کے بھی خلاف بول رہے ہوں۔

۔یہاں یہ بات واضح کردوں متحدہ کی پالیسی تاحال اپنے رہنماؤں اور ان کے ذاتی مفادات سے باہر نہیں نکلی ہے جس طرح ایک پڑھی لکھی قوم کوکے ایم سی تک محدود کرکے لیبرڈیویژن میں دھکیل دیا۔۔اور چند ایک خاندان اقتدارکے مزے اڑاتے رہے۔۔۔خالدمقبول صدیقی بلکل اس کے برعکس دکھائی دیئے۔۔۔رہنماایم کیوایم پاکستان نے گفتگومیں کئی حکومتی  ادھاروعدوں کی نشاندہی کی اوراپنے نقدوعدے یاد دلائے۔

۔حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام پرزورڈالا۔۔۔انھوں نے چیئرمین پی ٹی آئی اوروزیراعظم عمران خان کوباور کروایاکہ آپ عوام کویقین دلائیں تبدیلی محض آپ کادعوی نہیں بلکہ آپ کاارادہ بھی ہے۔۔۔کئی خوابوں کاذکرکر ڈالا،مارچ کے مہینے کی اہمیت ایوان کوبتائی کہا یہ مارچ کا مہینہ خواب دیکھنے کامہینہ ہےمسلمانان برصغیر نے 23مارچ 1940کووطن کاخواب دیکھا تھاسات برس میں وطن توحاصل کرلیا مگرستربرس میں ملک بنانے کامقصد حاصل نہیں کرسکے۔

۔خالدمقبول نے اپنی گفتگو میں کہاکہ ہم چاہتے ہیں ملک بنانے کامقصد آپ کے ہاتھوں حاصل ہو۔۔۔۔پھرایوان میں تبدیلی کاذکرکیاتو کسان کی نمائندگی کے لئے کسان کوبہترین انتخاب قراردیااورجاگیرداروں کی مخالفت کی۔۔۔کہا یہاں ایوان میں خاندان نہیں عوام ہونے چاہیئں۔۔۔خالد مقبول صدیقی کی گفتگو میں کوئی لفظ اضافی نہیں سناناہی ایسامحسوس ہواکہ وہ یہ سارااسکرپٹ سوچ سمجھ کرآئے ہیں۔

۔۔تاہم ان کے لہجے کی بے زاری اورشدیدغصہ اس بات کی غمازی کررہاتھابقول عباس تابش۔۔۔۔پانی آنکھ میں بھرکے لایاجاسکتاہے۔۔۔۔۔اب بھی جلتاشہربچایاجاسکتاہے۔۔۔ملک کے معتبر سیاسی حلقوں نے ایم۔کیوایم رہنماکی گفتگو کی تعریف کی۔۔۔سیاسی حلقوں کا ماننا ہے کہ اگرچہ اردوبولنے والے پاکستان کے وارث جنھیں عام طورپرمہاجرکہاجاتاہے ان کی نمائندگی کے دعویدار آنکھ میں آنکھ ڈال کراس ہی انداز سے بات کرتے توشاید آج صورت حال مختلف ہوتی ۔

۔۔بہرحال دیرآیددرست آید، اب بھی وقت ہے سندھ سمیت پورے پاکستان میں جہاں بھی مسائل ہوں ان پر مقامی منتخب نمائندے کافرض ہے وہ بات کرے۔۔۔۔اورعوام کے مسائل حل ہوں۔۔چلتے چلتے خالد مقبول صاحب آپ کوایک مشورہ بھی دیناچاہوں گا۔۔اب یہ نئے اورپرانے سندھی  کی تفریق سے بھی اس قوم کوباہرنکالیں اورمتروکہ سندھ پربات کریں تاکہ اردوبولنے والوں کی احساس کمتری کاخاتمہ ہوسکے،اردو بولنے والے ایک قوم ہیں، مہاجر،مکڑ،بھیئے،نہیں بلکہ اس وطن کے مستقل شہری ہیں۔۔۔ان کولوگوں کامخالف نابنائیں بلکہ ایوان میں موجود لوگوں کی ذہن سازی کریں کہ ان کومہاجرنہیں پاکستانی کہاجائے۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :