فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی ترقی کی راہ پر گامزن

منگل 28 جولائی 2020

Umair Ali Anjum

عمیر علی انجم

پاکستان کا ماہی گیری کا شعبہ ملکی معیشت میں اہم مقام رکھتا ہے، ملکی زرعی شعبے کا جی ڈی پی میں 22 فیصد حصہ ہے جس میں سے ایک فیصد حصہ ماہی گیری کا ہے۔ پاکستان میں سمندری ماہی گیری سے سالانہ ساڑھے 6 لاکھ ٹن سے زائد مچھلی پکڑی جاتی ہے جس میں سے 12 ارب روپے مالیت کی مچھلی اور دیگر سمندری خوراک یورپی یونین اور خلیجی ریاستوں سمیت امریکہ، جاپان، سری لنکا اور سنگاپور وغیرہ کو برآمد کی جاتی ہے جبکہ پاکستانی ماہی گیری کی صنعت سے 40 لاکھ سے زائد افراد کا روزگار وابستہ ہے جن میں سے 25 لاکھ کاتعلق سندھ سے ہے۔

وادی مہران میں ماہی گیروںکی فلا ح و بہبود کے لیے فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی کے نام سے ایک ادارہ کام کررہا ہے ۔اس ادارے کو ہم پاکستان پیپلزپارٹی کی مزدور دوست پالیسیوں کا ثمر کہہ سکتے ہیں ۔

(جاری ہے)

روٹی ،کپڑا اور مکان کے منشور کی حامل شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کی وارث جماعت کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ماہی گیروں کے لیے وہ تمام اقدامات کیے جائیں ،جن سے ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی جاسکیں ۔

پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت نے بھی اسی وژن کو سامنے رکھتے ہوئے فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی میں انقلابی تبدیلیوں کے لیے ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیا جو مٹی کو سونا بنانے پر قادر ہیں ۔حافظ عبدالبر نے 2017میں بحیثیت چیئرمین فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں تو انہیں بہت سے چیلنجز کا سامنا تھا لیکن شہید بھٹو کے شیدائی نے چیلنز سے نبرد آزما ہونے کی ٹھان لی اور تمام مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ادارے کو ترقی کی جانب سے گامزن کرنے کے لیے اپنا ایک وژن پیش کیا ۔


حافظ عبدالبر نے اس عزم کے ساتھ فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی میں آئے تھے کہ وہ فشری کا نقشہ بدل دیںگے ۔انہوںنے ادارے کی باگ دوڑ سنبھالتے ہی انقلابی اقدامات اٹھانا شروع کردیئے ۔سب سے پہلے انہوںنے  ادارے کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے چار نئے شعبے بھی قائم  کیے۔ ماضی میں ادارے میں بائیو میٹرک سسٹم رائج کیا گیا تھا مگر رپورٹس ہیں کہ چند دنوں بعد ہی بائیو میٹرک مشینیں خراب کردی گئیں  انہوں نے اس شعبے کو بھی ازسرنو تشکیل دیا اور تمام شعبوں میں بائیو میٹرک مشینیں نصب کردی گئی جس کے نتیجے میں متعدد گھوسٹ ملازمین پکڑے گئے۔

فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے تحت تمام اسپتال اور ڈسپینسریز میں کام شروع کروا دیا گیا  اور فوری طور پر ڈاکٹروں اور دیگر اسٹاف کی موجودگی لازمی کی گئی۔ادارے سے ریٹائرڈ ملازمین کو لگ بھگ 10 سال سے گریجویٹی نہیں دی گئی تھی جس پر انہوں نے فوری کارروائی کی ہے اور ایسے ملازمین کو گریجویٹی ادا کرنے کا سلسلہ شروع کیا ۔حافظ عبدالبر نے ادارے میں خود کسی افسر کے طور پر نہیں ماہی گیروں کے خادم کے طور پیش کیا اور ایک بڑے بھائی کا کردار نبھایا ہے ۔

آج ادارے میں کام کرنے والے ملازمین ہوں یا ماہی گیری سے وابستہ افراد ان سب کا یہی کہنا ہے کہ حافظ عبدالبر نے ماہی گیروں کو اپنا سمجھ کر ان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے۔بہت سے مسائل ایسے تھے جو 30سال سے جوں کے توں پڑے تھے لیکن حافظ صاحب کی ولولہ انگیز قیادت میں یہ مسائل چٹکی بجاتے ہی حل کرلیے گئے ۔گھڈہ لیاری کے رہائشیوں کا دیرینہ پانی کا مسئلہ ہو یا میت بس کی مرمت اور مسجد کی تعمیر و تزئین و آرائش سمیت دیگر بنیادی مسائل ان کا سب کا حل ہونا حافظ عبدالبر ہی کی مرہون منت ہے ۔


ماہرین کا کہنا ہے کہ  ملکی زراعت کا اگلا انقلاب ماہی گیری کے شعبے میں پنہاں ہے اور مچھلیوں کی پیداوار بڑھانے کیلئے اچھی اقسام کی مچھلیوں کا انتخاب ہی بہتر نسل کیلئے انقلاب برپا کرسکتا ہے۔پاکستانی زراعت میں ماہی گیری کے حصے کو 10 فیصد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ ساحلی پٹی پر فش فارمنگ کو فروغ دیتے ہوئے نہ صرف قیمتی زرمبادلہ میں اضافہ بلکہ غربت اور بے روزگاری میں بھی کمی کر سکتی ہے۔

فش فارمنگ کے اعتبار سے سندھ میں ماہی گیروںکی بستیاں خصوصا ریڑھی گوٹھ، چشمہ گوٹھ، ابراہیم حیدری، ہاکس بے، عبداللہ گوٹھ، عبدالرحمن گوٹھ، مبارک ویلج، شیریں جناح کالونی، گزری، کیماڑی، کھڈہ، لیاری اور دیہہ اللہ بنوں جبکہ بلوچستان میں نصیر آباد، جعفر آباد، سبی، کھپی اور لسبیلہ کی ساحلی پٹی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔یہ بات خوش آئند ہے کہ چیئرمین فشریز کو ان تمام باتوں کا ادراک ہے اور وہ فشریزکو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے پرعزم ہیں ۔

وہ ایک وژن کے مطابق کام کررہے ہیں اور اس بات میں کوئی دد رائے نہیں ہے کہ اگر وہ مزید کچھ سال اس عہدے پر رہے تو ملک میں ماہی گیری کی صنعت کو ایک نئی جلا ملے گی ۔
کورونا وائرس کی وبا نے جہاں دنیا بھر کو متاثر کیا ہے وہیں سندھ کی ساحلی پٹی کے ماہی گیر بھی اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے لیکن یہاں چیئرمین فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی کے چیئرمین حافظ عبدالبر کو داد دینی چاہیے کہ وہ اس مشکل وقت ماہی گیروں کے لیے آگے آئے اور کسی شفیق باپ کی طرح انہوںنے ماہی گیروں کی داد رسی کی ۔

انہوںنے کورونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران  سولہ ہزار سے زائد ماہیگیروں کے گھر پر راشن پہنچادیا ہے اور یہ راشن کراچی سے بدین تک ماہی گیروں کے گھروں تک پہنچا یا گیا ہے ۔حافط عبدالبر کی جانب سے یہ انسانیت کی اتنی بڑی خدمت ہے جس کی مثال بہت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے ۔
حافظ عبدالبر کی ذاتی شخصیت کی بات کی جائے تو یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ شجر سایہ دار کی طرح ہیں اور وہ ایک ایسا درخت ہیںکہ جس سے آپ کو پھل ملے نہ ملے چھاؤ ں ضرور ملے گی ۔

ملنسار شخصیت کے حامل عبدالبر جب اپنی چمکتی آنکھوں کے ساتھ آپ سے مخاطب ہوتے ہیں تو آپ ان کی شخصیت کے سحر میں کھوجاتے ہیں ۔یہاں پیپلزپارٹی کی قیادت کو بھی داد دینی چاہیے کہ اس نے فشری جیسے مشکل شعبے کے لیے ان جیسی شخصیت کا انتخاب کیا ہے ،جو چیلنجز سے نمٹنا جانتی ہے اور انہیں علم ہے کہ وہ کن مراحل سے گزر کر اپنے ماہی گیروں بھائیوں کو ایک خوشحال زندگی دے سکتے ہیں ۔

حافظ عبدالبر کی قیادت میں فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی نے ترقی کا جو سفر شروع کیا ہے وہ محض ابھی آغاز ہے ۔وہ اپنے آنے والوںکے لیے ایک راستہ چھوڑ کر جارہے ہیں ۔انہوںنے منزل کا تعین کردیا ہے اور وہ وقت دور نہیں ہے جب حافظ عبدالبر کی قیادت اور رہنمائی میں فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی کا شمار ملک کے کامیاب ترین اداروں میں ہوگا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :