یہ کام کرنے کا وقت اب ہے

بدھ 3 مارچ 2021

Umar Farooq

عمر فاروق

ڈاکٹر صاحب نے جب یہ واقعہ سنایا تو وہاں پر موجود ہر شخص پریشانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگا، آخر اس ملک میں ہو کیا رہا ہے، ہم کس طرف جا رہے ہیں، اگر یہ مخطوطہ اور تفسیر کا نسخہ ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ نہ لگتا تو کیا ہوتا...

(جاری ہے)

؟ اس کے ایک ایک صفحہ کو ادھیڑ کر اس پر کھانے کی چیزیں رکھ کر بچوں کو دی جاتیں اور بعد میں یہ لوگوں کے پاؤں تلے مسلا جا رہا ہوتا، وہ واقعہ کیا ہے آپ پہلے یہ ملاحظہ کریں: چند دن پہلے کی بات ہے مجھے "کتب بینی" پر ایک ادبی بیٹھک میں شرکت کرنے کا موقع ملا، اس بیٹھک میں ایک ڈاکٹر صاحب نے بھی شرکت کی جنہوں نے اس واقعہ کا ذکر کیا، یہ واقعہ ہمارے معاشرے کی خوفناک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے، اس پر سنجیدگی کے ساتھ سوچ و بچار کرنا نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ ہر صاحب عقل اور صاحب ادب پر فرض بھی ہے، ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں: میں عصر کی نماز ادا کرکے مسجد سے نکلا تھا کہ اچانک ایک پھیری والے نے آواز دے کر اپنی جانب آنے کا اشارہ کیا، قریب پہنچنے پر اس نے دو کتابیں میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا "ان میں کہیں اسلامی اور دینی باتیں تو بیان نہیں کی گئیں تاکہ بعد میں یہ نہ ہو میں ان پر کھانے کی چیزیں رکھ کر دے دوں اور  ان کی بے ادبی ہوتی رہے"  ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں "جب میں نے ان کتابوں کو دیکھا تو وہ مجھے بہت نایاب معلوم ہوئیں، میں نے انہیں خرید کر "بیت الحکمت" لاہور بھیج دیا، تحقیق کے بعد جو معلوم ہوا میں وہ جان کر حیران رہ گیا کہ ایک "مقامات حریری" کے نام سے ڈھائی صدی پرانا نادر اور نایاب مخطوطہ جبکہ ایک ہاتھوں سے لکھا "تفسیر روح البیان"  کا نسخہ تھا، یہ سن کر ہم سب ایک دوسری کی طرف پریشانی سے دیکھنے لگے لیکن اس سے زیادہ حیرت اور پریشانی مجھے یہ سوچ کر ہوئی یہ نسخہ اور مخطوطہ کتنے ہاتھوں سے ہوتا ہوا اس پھیری والے کے پاس پہنچا ہوگا اور کسی کو اس کی خبر تک نہیں ہوئی، خبر ہو بھی کیسے ہم نصاب کی کتابیں بیچ کر ڈکار جاتے ہیں یہ تو پھر غیر نصابی اور غیر اہم کتابیں تھیں لیکن آج سے بارہ صدیاں قبل ایسے نہیں تھا، ہمارا اصل اثاثہ ہماری کتابیں ہوا کرتی تھیں، ہماری لائبریریاں ہی ہمارا سب کچھ تھیں، بغداد اس زمانے میں سائنس کا گڑھ تھا، بیت الحکمت بغداد کی سب سے بڑی لائبریری تھی جسے آٹھویں صدی میں ہارون الرشید کی ذاتی لائبریری کے طور پر قائم کیا گیا تاہم تیس سال بعد اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا، اس کا موازنہ آج لندن کی برٹش لائبریری اور ببلیو بیتھک لائبریری سے کیا جا سکتا ہے،821سنہ میں الخوارزمی کو چیف لائبریرین مقرر کیا گیا، یہ الخوارزمی تھا جس نے کوآرڈریٹک ایکویشنز کو باقاعدہ حل کرنے کا طریقہ پیش کیا، جس نے ڈیسیمل (اعشاریہ کے عدد کا نظام) متعارف کروایا، جو ماہر فلکیات اور الجبرا کا بانی تھا، تاریخ کی پروفیسر جون بیرو گرین (برطانیہ) کہتی ہیں "یہ مسلمان ہی ہیں جنہوں نے یونانی نظریات کے مقامی زبانوں میں تراجم کیے اور ان کے نتیجے میں ہماری ریاضی کے بارے میں سمجھ بوجھ قائم ہوئی" کتابیں پڑھنے کا عالم یہ تھا کہ بغداد کے ایک عالم پوری کی پوری لائبریری کرائے پر لے لیتے تھے، اسپین میں قرطبہ مسلمانوں کا ہی نہیں ساری دنیا کا علمی مرکز تھا، اس دور میں علم ہیئت، علم ریاضی، علم طب، علم نجوم، علم کیمیا، علم نباتات اور بے شمار صنعتی علوم و فنون مسلمانوں کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ تھے، اندلس کے دوسرے اموی خلیفہ حکم ثانی کی لائبریری اپنے دور میں دنیا کی سب سے بڑی لائبریری تھی، اس میں تمام علوم عقلیہ پر چار لاکھ ایک روایت میں چھ لاکھ کتب موجود تھیں، لائبریری کا کیٹلاگ 44 بڑی جلدوں پر مشتمل تھا، مسلمانوں کو جہاں سے سیکھنے کا موقع ملتا یہ اس طرف بھاگے چلے جاتے تھے، ہم نے کاغذ بنانے کا فن آٹھویں صدی میں چینیوں سے سیکھا اور اس فن کو دو سال کے اندر اندر وسطی ایشیا سے ایران، عراق، شام، مصر، مراکش، سسلی اور ہسپانیہ تک پہنچادیا جبکہ یورپ صدیوں تک اس بحث میں پھنسا رہا کہ کاغذ پپائرس سے بنتا ہے، (یہ ایک پودا ہے جس کو چیر کر اس طرح جوڑا جاتا ہے کہ اس پر لکھائی ممکن ہوتی ہے، قدیم لوگ لکھائی کے لئے اس کا استعمال کرتے تھے) یہ چرچوں، پادریوں، جہالت اور تعصبات کی بھینٹ چڑھا رہا، یورپ نے 10 صدی میں پہلی مرتبہ کاغذ کا استعمال کیا، چودھویں صدی کے اختتام پر جرمن اولمان شٹومر نے الپس کے پہاڑی سلسلے کے شمال میں کاغذ کی پہلی مل لگائی، پورپ اس کے بعد علم وتحقیق میں کود گیا اور ہم نے اپنے ہی میراث سے ہاتھ کھینچنا شروع کردیے، ہم کتابوں اور لائبریریوں سے بغاوت کرنے لگے، آج حالت یہ ہے کہ ہماری لائبریریوں میں الو بول رہے ہیں، کتابیں برسوں سے اپنے پڑھنے والوں کا انتظار کر رہی ہیں، پڑھنا تو دور ہم نادر اور قیمتی کتابوں کو اٹھا کر ردی والے کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں یہی وجہ کہ پورے ملک میں جہالت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، لوگ لوگوں کے گریبانوں سے الجھ رہے ہیں، بجائے اس کے کہ ہم بہت دیر کردیں ہمیں کتب بینی کے رجحان کو فروغ دینا ہوگا، لوگوں کو کتابوں کی طرف راغب کرنا ہوگا، سکول، کالجز، یونیورسٹیاں، مساجد، مدارس، علماء کرام، حکومتی نمائندگان اور ادیبوں کو مل کر لائبریریاں آباد کرنی ہوں گی اور یہ کام کرنے کا وقت اب ہے، ہم نے اگر اب بھی دیر کردی تو تاریخ ہمیں دوبارہ سنبھلنے کا موقع نہیں دے گی۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :