چیف جسٹس کے نام

پیر 10 ستمبر 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

اندھوں کے اس دیس میں چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثارکوعوام نے بابائے رحمتے کالقب وخطاب اس لئے دیاکہ وہ برسوں سے ظلم وناانصافی کی چکی میں پسنے والے غریب عوام کے لئے واقعی خداکی کوئی رحمت ثابت ہوں گے،چیف جسٹس نے بھی اب تک عوامی توقعات اورامیدوں سے بڑھ کرملک وقوم کے لئے ایک دونہیں کئی تاریخی اقدامات اٹھائے ،عوام کوطبی سہولیات کی فراہمی کامسئلہ ہو،لوٹ مارکامعاملہ ہویاپھرپانی کی قلت اوربحران کاخدشہ،چیف جسٹس کوہرموقع اورمحاذپرسب نے سب سے آگے پایا۔

چیف جسٹس نے ملک کے ان بڑے بڑے مگرمچھوں اورسورماؤں کوجن کی طرف دیکھنابھی ماضی بعیداورقریب میں جرم اورگناہ تصورکیاجاتاتھاکوعدالتوں،دفاتر،ہسپتالوں اورسرکاری اداروں میں کانوں سے پکڑکرنہ صرف فرسودہ روایات کوتوڑڈالابلکہ ملک میں تبدیلی کی مضبوط بنیادیں بھی رکھیں۔

(جاری ہے)

لیکن ان سب تاریخی اقدامات کے باوجود ملک کاغریب اورمظلوم طبقہ آج پھر بھی ظالموں اوربے انصافوں کے ہاتھو ں ملک میں جابجا تماشابناہواہے۔

کراچی سے گلگت اورچترال سے کاغان تک اس ملک میں آج بھی دن کی روشنی میں ظالم کومظلوم،بے گناہ کوگناہ گاراورمجرم کومحرم بنایاجاتاہے مگرکسی کوکوئی پرواہ نہیں ،شراب کوشہداورنسوارکوچرس ثابت کرناتوہماری پولیس کے بائیں ہاتھ کاکام ہے اوراب یہ منظرتوچیف جسٹس صاحب آپ نے بھی کراچی میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا،چیف جسٹس صاحب اس ملک میں پچھلے سترسالوں سے شراب کوشہد اورکالی مٹی کوچرس بنانے میں کوئی ٹائم لگااورنہ اب ذرہ بھی کوئی دیرلگتاہے،کراچی میں آپ کی اپنی آنکھوں سے دیکھی گئی شراب اگرشہداورکسی عام مشروب میں تبدیل ہوسکتی ہے توپھراس ملک میں عام غریبوں کی آنکھوں سے دیکھی جانے والی اشیاء کیاسے کیانہیں بن سکتی۔

۔؟ہماری عدالتوں اورتھانوں میں ہزاروں اورلاکھوں فائیلیں اسی طرح کے بنے بنائے گئے جھوٹے مقدمات اوربوگس ایف آئی آرزسے بھری پڑی ہیں جس میں امیرطبقے کوبچانے کے لئے شہدکوشراب یامٹی کوچرس بناکرغریبوں کوپھنسایاگیاہے ۔اس ملک کے کسی بھی غریب اورشریف شہری کاجب بھی کسی بااثر،جاگیردار،سرمایہ دار،خان اورنواب سے کسی مسئلے پرسامناہوتاہے توپھروہ کسی جھوٹے مقدمے اوربوگس ایف آئی آرسے نہیں بچتا،کسی غریب کی کوئی بات بھی اگرکسی پولیس والے کوناگوارگزرے توپھراس غریب بے چارے کی اصل شہدبھی شراب اورمٹی چرس بن جاتی ہے،اس اندھیرنگری اورچوپٹ راج کی وجہ سے اس ملک میں قاتل ،ڈاکو،چور،راہزن اورلٹیرے توآزادگھومتے ہیں مگراللہ کے سواکوئی اسراء اورسہارانہ رکھنے والے غریب مفت میں قاتل ،ڈاکو،چور،راہزن اورمجرم بن جاتے ہیں ۔

تھانوں ،کچہریوں اورعدالتوں میں آج بھی غریبوں کوانصاف ملتانہیں بلکہ بکتاہے۔چیف جسٹس صاحب اس ملک کے صرف سرکاری ہسپتالوں میں غریب ایڑھیاں رگڑرگڑکرجان نہیں دے رہے بلکہ یہاں کے تھانوں ،کچہریوں اورعدالتوں میں بھی ہرطرف صرف غریبوں کی آہیں اورسسکیاں سنائی دیتی ہیں۔
کرپٹ ،چوراورلٹیرے لوگوں کی وجہ سے اس ملک میں انصاف کوغریبوں کے لئے شجرممنوعہ قراردے دیاگیاہے۔

دعوے اوروعدے توہرطرف اورہرحاکم کی جانب سے کئے گئے اورآج بھی بڑے زوروشورسے کئے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجوداس ملک میں برسوں سے امیراورغریب کے لئے رائج الگ الگ نظام،پیمانہ اورروایات آج بھی اسی طرح قائم ودائم ہیں ۔دس روپے کی چوری پرغریب توجیلوں کے سلاخوں کے پیچھے پہنچ جاتے ہیں لیکن کروڑوں اوراربوں روپے ڈکارنے والے اول توقانون کے شکنجے میں ہی نہیں آتے پھربھی اگرغلطی سے آجائے تووہ کسی اچھے بھلے سانڈاورپہلوان کی طرح موٹے تازے ہوکربھی پھرکسی جیل اورکال کوٹھری کی بجائے میڈیکل کے نام پرشرجیل میمن کی طرح کسی وی آئی پی ہسپتال میں عیاشی کی زندگی گزارنے پہنچ جاتے ہیں ۔

اس ملک میں توغربت اوربھوک کے ہاتھوں روٹی کاایک نوالہ چوری کرنے والوں کی توپولیس کے ہاتھوں درگت بنانے کے بعدانہیں ہتھکڑیاں اوربیڑیاں بھی گھرسے ہی لگائی جاتی ہیں لیکن راؤانوارجیسے بااثرقاتلوں،ڈاکوؤں،چوروں اورلٹیروں کوچوری ،قتل،لوٹ ماراورسرعام ڈاکے کے بعدبھی شہزادوں جیساپروٹوکول دیاجاتاہے۔اس کے مقابلے میں اس ملک کے اندرغریب کوانصاف دینے کی بجائے قدم قدم پرغربت کی سزادی جاتی ہے۔

غریبوں کونہ ہسپتالوں میں ڈاکٹربخشتے ہیں نہ تھانوں اورکچہریوں میں پولیس والے چھوڑتے ہیں اورنہ ہی کوئی وکیل ان پرذرہ بھی کوئی رحم کھاتے ہیں۔ملک میں طبقاتی نظام کودیکھ کریوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے یہ غریب ہی صرف بے انصافی کے لئے پیداہوئے ہوں۔اللہ نہ کرے اگرکسی غریب کاکسی تھانے ،ہسپتال یاکسی عدالت سے پالاپڑے توپھرزندگی بھراس غریب کی اس مسئلے اورمقدمے سے جان نہیں چھوٹتی۔

آج بھی اس ملک میں ان غریبوں کے ہزاروں کیسزعدالتوں میں زیرالتواء ہوں گے۔انصاف کی راہ دیکھتے دیکھتے غریب قبرمیں اترجاتے ہیں لیکن انصاف انہیں پھربھی نہیں ملتا۔ چیف جسٹس صاحب آپ اس ملک کے سب سے بڑے منصف اور22کروڑعوام کے لئے امیدکی ایک کرن ہیں،،سب سے پہلے انصاف،، آپ کامشن اورمقصدہے۔آپ کی موجودگی میں بھی اگراس ملک سے اندھیرنگری اورچوپٹ راج کایہ نظام ختم اورغریب عوام کوانصاف نہ مل سکاتوپھراس ملک کے یہ غریب انصاف کواسی طرح ہمیشہ ترستے اورتڑپتے رہیں گے۔

چیف صاحب آپ ہسپتالوں اورجیلوں کے دورے ضرورکریں لیکن خدارااس کے ساتھ آپ تھانوں،کچہریوں اورعدالتوں میں انصاف کے لئے رلتے،تڑپتے ،ترستے اورایڑھیاں رگڑنے والے غریبوں کی خبربھی لیں۔چیف جسٹس صاحب ۔آپ کی اپنی آنکھوں سے دیکھی جانے والی شراب کی ماہیت اگرتبدیل ہوسکتی ہے توپھران غریبوں کی حیثیت توپہلے سے پولیس اوردیگربدمست قانونی اہلکاروں کے سامنے رینگنے والے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ،ایسے میں ان کے ساتھ پھرتھانوں،کچہریوں اورحوالات میں کیاکچھ نہیں ہوسکتا۔

۔؟
چیف جسٹس صاحب جس طرح کراچی میں شراب شہدیاعام مشروب میں تبدیل ہوئی اسی طرح اس ملک میں ہرجگہ غریبوں کی سچائی جھوٹ اوربے گناہی جرم میں تبدیل ہونے میں بھی ذرہ ٹائم نہیں لگتا۔تھانوں،کچہریوں اورعدالتوں میں بے انصافی کابوجھ برداشت کرتے کرتے اس ملک کے غریب تھک چکے یاپھراکثرقبروں میں اترچکے ہیں۔جوبچے ہوئے ہیں اب ان میں مزیدبے انصافی،ظلم اورطبقاتی تفریق کاوزن اٹھانے کی ذرہ بھی ہمت اورسکت نہیں۔

اس لئے چیف جسٹس صاحب آپ حقیقت کی دنیامیں ان غریبوں کے لئے بابائے رحمتے بن کراس ملک کے 22کروڑعوام اورغریبوں کواس اندھیرنگری اورچوپٹ راج سے نجات دلادیں ۔آپ شراب کوشہد،قاتل کوبے گناہ اورمجرم کومحرم بنانے والے کسی ایک ظالم کوالٹالٹکائیں ہمیں امیدہے کہ آپ کے ایک تاریخی فیصلے اوراہم اقدام اٹھانے سے یہ نظام پھر خودبخودٹھیک ہوجائے گا۔

چیف جسٹس صاحب آپ اگراس ملک میں انصاف کابول بالااورظالموں کامنہ کالاکرنے میں کامیاب ہوگئے توپھراس ملک کے یہ غریب زندگی بھرآپ کودعائیں دیں گے۔اس لئے چیف جسٹس صاحب وقت کم اورمقابلہ بڑاسخت ہے۔خداراآپ بھاشاڈیم کی طرح اس ملک میں انصاف کاایک ڈیم بنانے کے لئے بھی ہنگامی احکامات جاری کردیں،بھاشاڈیم سے جس طرح لوگ پانی کی پیاس بجھائیں گے اسی طرح پھر انصاف کے اس ڈیم سے بھی لاکھوں اورکروڑوں لوگ انصاف کی پیاس بجھائیں گے جوپھرنہ صرف تاریخ کے اوراق میں آپ کاایک بہت بڑاکارنامہ اورجہادشمارہوگابلکہ ہمیں اپنے خداپریہ بھی یقین ہے کہ بھاشاڈیم کی طرح انصاف کایہ ڈیم بھی آپ کے لئے دونوں جہانوں میں صدقہ جاریہ ثابت ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :