قوم کے بہادر سپوت

جمعہ 30 اپریل 2021

Umer Nawaz

عمر نواز

1 مئی مزدور ڈے جسے دنیا کے مزدور اپنی آسان زبان میں چھٹی کا دن بھی کہتے ہیں، کیونکہ مزدوروں کے لیے چھٹی کسی عید سے کم نہیں ہوتی۔لیکن اس عید کا مزہ بھی صرف وہ مزدور لے سکتے ہیں جو کسی کارخانے میں کام کرتے ہیں۔مزدور ڈے ہر سال 1 مئی کو بہت جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔جوش و خروش کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کیونکہ اس دن مزدورڈے کے حوالے سے جتنی بھی تنظیمیں ہیں وہ بڑے جوش جذبہ کے ساتھ جلسے،جلوس اور تقاریر کر رہی ہوتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ان تقاریر میں کیے گئے وعدوں پر عمل در آمد ہوتا ہے کہ نہیں۔اسکا جواب کیا ہے؟یہ ہم سب جانتے ہیں لیکن جانتے ہوئے بھی انجان بن کر زندگی گزار رہے ہیں۔مزدوروں کے حق پر بات کرنے والی ہماری سیاسی و سماجی تنظیمیں یہ بھول جاتی ہیں کہ اس دن کو منانے کا مقصد کیا تھا اور اگر آج بھی ہم اس دن کو مناتے ہیں تو اس کا مقصد کیا ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)

مزدوروں کا عالمی دن ان مزدوروں کا عالمی دن ہونا چاہیے جو سارا دن تپتے دھوپ میںروڈ کے کنارے کھڑے کسی مسیحا کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ کب کوئی مسیحا آئے اور ان کو ساتھ لے جائیں، تاکہ یہ بھی روٹی کما سکیں اور اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کوئی چار پیسے کما سکیں۔ مزدور ڈے پرسڑک کنارے روزانہ کی بنیاد پر دیہاڑی لگانے والے مزدور کو یہ تک نہیں پتہ ہوتا کہ آج اس کا عالمی دن ہے۔

وہ تو 1 مئی کو بھی اپنے لیے مزدوری کی تلاش میں تگ ودو کر رہا ہوتا ہے۔اور جو نام نہاد سیاسی و سماجی تنظیمیں ہوتی ہیں وہ 1 مئی کو مزدوروں کا نعرہ لگاتے اپنی دوکانداری چمکا رہی ہوتی ہیں۔اصل میں 1 مئی مزدوروں کا عالمی دن ہے لیکن مزدور اس دن کی اہمیت نہیں جانتے اگر اس دن کی اہمیت جانتے ہوتے تو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے لیکن جو اصل میں مزدور ہیں اسکاپیٹ اسے اس طرح کے کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا مزدور ڈے مزدوروں کو ان کے حقوق دلانے اور مزدوروں کے حقوق حاصل کرنے کا دن ہے اگر اس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ1884ء میں فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈرز اینڈ لیبریونینز نے اپنا ایک اجلاس منعقد کیا جس میں انہوں نے ایک قرارداد پیش کی۔

قرارداد میں کچھ مطالبے رکھے گئے جن میں سب سے اہم مطالبہ 'مزدوروں کے اوقات کار کو 16 گھنٹوں سے کم کر کے 8 گھنٹے کیا جائے۔ مزدوروں کا کہنا تھا 8 گھنٹے کام کے لیے، 8گھنٹے آرام کے لیے اور 8 گھنٹے ہماری مرضی کے۔ یہ مطالبہ یکم مئی سے لاگو کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔ لیکن اس مطالبہ کو تمام قانونی راستوں سے منوانے کی کوشش ناکام ہونے کی صورت میں یکم مئی کو ہی ہڑتال کا اعلان کیا گیا اور جب تک مطالبات نہ مانے جائیں یہ تحریک جاری رہے گی۔

16-16 گھنٹے کام کرنے والے مزدوروں میں 8 گھنٹے کام کا نعرہ بہت مقبول ہوا۔ اسی وجہ سے اپریل 1886 ء تک 2 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ مزدور اس ہڑتال میں شامل ہونے کے لیے تیار ہوگئے۔ اس تحریک کا آغاز امریکہ کے شہر "شگاگو" سے ہوا۔ ہڑتال سے نپٹنے کے لیے جدید اسلحہ سے لیس پولیس کی تعداد شہر میں بڑھا دی گئی۔ یہ اسلحہ اور دیگر سامان پولیس کو مقامی سرمایہ داروں نے مہیا کیا تھا۔

تاریخ کا آغاز یکم مئی سے شروع ہوگیا۔ پہلے روز ہڑتال بہت کامیاب رہی دوسرے دن یعنی 2 مئی کو بھی ہڑتال بہت کامیاب اور پرامن رہی۔ لیکن تیسرے دن ایک فیکٹری کے اندر پولیس نے پر امن اور نہتے مزدوروں پر فائرنگ کر دی جس کی وجہ سے چار مزدورہلاک اور بہت زخمی ہو گئے۔اس واقعہ کے خلاف تحریک کے منتظمین نے اگلے ہی روز 4 مئی کو ایک بڑے اجتجاجی جلسے کا اعلان کیا۔

اگلے روز جلسہ پرامن تھا لیکن آخری مقرر کے خطاب کے دوران پولیس نے اچانک فائرنگ شروع کرکے بہت سے مزدور ہلاک اور زخمی کر دے۔ پولیس نے یہ الزام لگایا کہ مظاہرین میں سے ان پر گرینیڈ سے حملہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ایک پولیس ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے ہیں۔ اس حملے کو بہانہ بناکر پولیس نے گھر گھر چھاپے مار ے اور بائیں بازو اور مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر لیا‘ ایک جعلی مقدمے میں آ ٹھ مز دور رہنماؤں کو سزا ئے موت دے دی گئی البرٹ پار سن‘ آ گسٹ سپائز ‘ایڈولف فشر اور جارج اینجل کو 11 نومبر 1887ء کو پھانسی دے دی گئی۔

لوئیس لنگ نے جیل میں خود کشی کر لی اور باقی تینوں کو 1893میں معافی دیکر رہا کر دیا گیا۔ مئی کی اس مزدور تحریک نے آ نے والے دنوں میں طبقاتی جدوجہد کے متعلق شعور میں انتہائی اضافہ کیا‘ایک نوجوان لڑکی ایما گولڈ نے کہا ’’کہ مئی1886ء کے واقعات کے بعد میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے سیاسی شعور کی پیدائش اس واقعے کے بعد ہو ئی ہے‘‘۔ البرٹ پا رسن کی بیوہ لوسی پارسن نے کہا’’ دنیا کے غریبوں کو چاہیے کہ اپنی نفرت کو ان طبقوں کی طرف موڑ دیں جو انکی غربت کے ذمہ دار ہیں یعنی سر ما یہ دار طبقہ‘‘۔جب مزدوروں پر فائر نگ ہو رہی تھی تو ایک مزدور نے اپناسفید جھنڈاایک زخمی مزدور کے خون میں سرخ کرکے ہوا میں لہرا دیا ‘اسکے بعد مزدور تحریک کا جھنڈاہمیشہ سرخ رہا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :