30نومبر سے

منگل 1 دسمبر 2020

Umer Nawaz

عمر نواز

30نومبر پاکستان پیپلز پارٹی کا یوم تاسیس ہے اس دن پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی 30نومبر 1967 کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن  کے گھر لیفٹیسٹ پسندوں نے اس پارٹی کی بنیاد رکھی ڈاکٹر مبشر, حسن ،معراج محمد خان ،حنیف رامے ، ذولفقار علی بھٹو اس پارٹی کے بانی ہیں بانی ارکان تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن یہ چند کچھ نام نمایاں  ہیں جب یہ پارٹی بنائی گئی تھی تب شائد اس کے بانیوں کے ذہن میں تو شائد یہی ہو کہ یہ پارٹی جمہوریت کے لیے بنائی گئی ہے عام آدمی کے لیے سویلین بالادستی نظریہ کی سیاست کو فروغ دینے کے لیے اس کے بانیوں نے اس کی بنیاد رکھی اگر تاریخ کو دیکھا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس پارٹی کا جو منشور پہلے دن تھا آج پچاس سال گزر جانے کے باوجود بھی یہی ہے دنیا میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں بیس سال پہلے جو چیز تھی آج وہ یکسر بدل چکی ہے یا پھر اس کی وہ اہمیت نہیں رہی لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور آج بھی قوم کی اسی طرح ترجمانی کرتا ہے جس طرح آج سے 53سال پہلے کرتا تھا یہ اس طرح محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ ایک سال پہلے بنایا گیا ہے کیا وجہ ہے دنیا یکسر بدل گئی ہے
ہم نی بدلے یا پھر ہماری سوچ پرانی ہے اگر سوچ کی بات کی جائے تو ہماری سوچ تو ماڈرن ہے لیکن طاقت وروں کے ابھی ارمان ہی پورے نہیں ہورہے وہ طاقت عوام کو دینے کو تیار ہی نہیں نا انھوں نے عوام کو قبول کیا ہے اسی لیے ان کو عوام کی تکلیف کی کوئی پروا نہیں ان کی اپنی ایک دنیا ہے وہ اسی کو ہی دیکتھے ہیں اور اسی بارے  میں ہی سوچتے ہیں اگر نظریہ کی بات کی جائے تو جو نظریہ اس پارٹی نے عوام کو دیا اس نظریہ میں عوام کی فلاحی بہبود ہی ہے لیکن کچھ طاقت ور لوگوں کو پہلے دن سے ہی یہ نظریہ کھٹکنے لگا اور انھوں نے اس کے خلاف سازشیں بھی کیں ایوب آمریت کے خلاف اس پارٹی نے مزاحمت اور جدوجہد شروع کی وہ پارٹی جو لاہورمیں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر معرض وجود میں آئ چند ہی دن میں عوام کی مقبول ترین جماعت بن گئی جب یہ پارٹی بنائی گئی اس وقت کسی نے اسے تانگہ پارٹی کہنے کی کوشش کی تو کسی نے فلاسفروں کی ناکام تھیوری کا نام دیا لیکن وہ اپنے آپ کو دھوکا اور جھوٹا بھلاوا دے رہے تھے کیوں کہ وہ یہ جانتے تھے کہ یہی پارٹی ان سے سوال بھی پوچھے گی اور یہی پارٹی عام آدمی کی نمائیدہ جماعت بھی بنے گی پھر یہی ہوا یہ پارٹی آمریت کے خلاف شیشہ دیوار بنی ایوبی آمریت کا خاتمہ اس پارٹی نے کیا عام آدمی کو اسمبلی تک اور تخت تک اس پارٹی نے پہنچایا اسی پارٹی نے عوام کو سوال دیا جو اس نے اشرافیہ سے پوچھا معراج محمد خان ،معراج خالد ،جہانگیر بدر جیسے ایک عام آدمی کو اسمبلی کا رکن بنایا اسی پارٹی نے ملک میں جمہوریت کی بنیاد رکھی کارکنوں اور لیڈر شپ قربانیوں نے اس پارٹی کو عام آدمی میں مقبول بنایا حسن ناصر زیدی،نزیر عباسی ، عثمان غنی ، جیسےکارکنوں اور ذولفقار علی بھٹو جیسے لیڈر نے اس پارٹی کے لیے  قربانیاں دیں طاقت وروں نے لوگوں کے دلوں سے اس پارٹی کی محبت نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ بری طرح ناکام رہے شاہی قلعہ ،اٹک قلعہ جیلیں کوڑے پھانسیاں آج بھی اس شہادتیں دے رہی ہیں کہ طاقت والوں نے کیا کیا ؟ لیکن کارکنوں نے اپنے لہو سے ان جمہوریت قاتلوں کو نست نابود کر دیا پیپلز پارٹی کے لیڈر پھانسی کے پھندوں کو جوم کراس کے اوہرجھول گئے لیکن وہ طاقت ورکے آگے سجدہ ریز نہیں ہوئے بلکہ اپنے لہو سے طاقت ور کو للکارتے رہے اور ان  سے حساب مانگتے رہے ملک میں جب بھی جمہوریت کی تاریخ لکھی جائے گی تواس پارٹی کے کارکنوں کا نام نمایاں لکھا جائے گا آج بھی یہ پارٹی اپنے منشور کے اوپر اسی طرح قائم آج بھی عام کارکنوں کو اسی طرح ماتھے کا جومر سمجھا جاتا ہے آج بھی اسمبلی کے اندر اس پارٹی نے کارکنوں کا بھٹھایا ہے مولابخش چانڈیو، رضاربانی ،کرشنا کولی جیسے عام کارکن اس پارٹی نے اسمبلی کے ادر پہنچائے ہیں اگر لیڈر شپ کی بات کی جائے تو نئیر بخاری ، چوہدری منظور، نفیسہ شاہ صاحبہ ، جیسے عام کارکن کے ہاتھ میں اس پارٹی کی باگ ڈور ہے اس پارٹی نے اپنے معرض وجود کے دن سے لے کر آج تک قربانیاں دی ہیں
جب گلشن کو لہو کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے گردن ہماری کٹی
پھر بھی اہل چمن یہ کہتے ہیں
کہ یہ وطن ہمارا ہے تمھارا نہیں
کارکنوں کی قربانیوں کی یہ لازاول تاریخ آج یہی گواہی دیتی ہے کہ ان قربانیوں بدولت یہ پارٹی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے اور سوسال بعد بھی یہ اسی طرح قائم رہے گی اور اسی طرں لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے گی
مٹی کی محبت میں ہم آشفتوں سروں نے
وہ قرض بھی اتارے ہیں جو ہم پر واجب بھی نہ تھے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :