پنجاب سے بھی انقلاب

جمعرات 19 نومبر 2020

Umer Nawaz

عمر نواز

کہتے ہیں پنجاب نے ہمیشہ مفاہمت کا راستیہ اپنایا ہے مزاحمت پنجاب کے ڈی این اے میں شامل نہیں لیکن پھر مسلم لیگ ن کی حالیہ پالیسیوں کو دیکھا جائے تو لگتا ہے پنجابی بھی انقلابی ہوگئے ہیں گجرانوالہ کا جلسہ ہو یاپھر کوئٹہ کا جلسہ مسلم لیگ ن نے طبل جنگ ہی بجایا ہے کوئٹہ کی تو سمجھ آتی ہے کہ پنجاب کا لیڈر بلوچستان میں کھڑے ہو کر اس طرح کی شائد تقریر کر دے کیوں ووٹ حاصل کرنے کے لیے سیاسی لیڈر کچھ بھی کر سکتے ہیں جب اقتدار نظریہ ہو پھر انسان کچھ بھی کر سکتا ہے اقتدار سب کچھ کروا دیتا ہے اگر بلوچستان کی تاریخ کے اوپر نظر دوڑائی جائے تویہی معلوم ہوتا ہے کہ اس سر زمین کے باسیوں کے ڈی این اے میں مزاحمت ہے مفاہمت نہیں بلوچ قوم نے ہر بار مزاحمت ہی کی ہے اس قوم کا ایک نظریہ بھی ہے جب متحدہ ہندوستان تھا تو سینٹرل ایشیاء سے آنے والے حکمرانوں سے بلوچ قوم نے ہمیشہ جنگ کی اور اسے آسانی سے ہندوستان میں داخل نہیں ہونے دیا جس حکمران نے بلوچوں سے فتح حاصل کی اسی نے ہی برصغیر پر حکومت کی اگر پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد کی بات کی جائے تو بلوچستان سے زیرک اور نظریاتی سیاست دان پارلیمنٹ اور سیاسی میدان میں آئے کوئی گیٹ نمبر 4 سے نہیں آیا سب نے جدوجہد کی اور عوامی گیٹ سے اس میدان میں داخل ہوئے سردار عطاء اللّہ مینگل ،نواب خیربخش مری ،غوث بخش بزنجو ہو یاپھر عبدالصمد اچکزائی ،غوث بخش رئیسانی ، نواب اکبر بگٹی ہو سب نے عوامی گیٹ پر ہی دستخط دی اور اسی گیٹ سے ہی اس میدان میں داخل ہوئے اس لیے کوئٹہ میں کھڑے ہو کر آپ انقلاب کا نعرہ بھی لگا سکتے ہیں اور انقلابی تقریر بھی کر سکتے ہیں لیکن پنجاب میں کھڑے ہوکر انقلابی نعرے لگانا اور کسی پنجابی کا انقلابی ہونا سمجھ سے بالا تر ہے اگر تاریخ کے اوراق کے اوپر نظر دوڑائی جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب نے ہمشیہ مفاہمت ہی کی ہے مزاحمت کا طریقہ کار ہی ان کو معلوم نہیں برصغیر پر حکمرانی کرنے کے لیے سینٹرل ایشیاء سے آنے والے ہر طاقت ور کو پنجاب نے محفوظ راستہ فراہم کیا اس قوم نے کبھی کوئی مزاحمت نہیں کی بلکہ طاقت ور کے آگے سجدہ ریز ہوئے اور اس کے عوظ فوائد حاصل کرتے رہے اب ایک پنجاب کے لیڈر کی پنجاب کے اندر کھڑے ہو کر انقلابی تقریر سمجھ سے بالا تر ہے اور وہ لیڈر جس نے ہمیشہ گیٹ نمبر 4کو ترجیح دی بلکہ اس گیٹ سے ہی سیاسی میدان میں داخل ہوا اس پورے پنجاب کی بات ناکی جائے وسیب کے لوگوں کے نظریات بھی ہیں اور ان لوگوں نےہمیشہ سچ کا ساتھ دیا آج کا جو پنجاب ہے اس میں سرائیکی بھی شامل ہیں لیکن اگر تاریخ کے اوراق کے اوپر نظر دوڑائیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وسیب کی اپنی ایک تاریخ ہے وسیب اور پنجاب دو مختلف قومیتیں ہیں یہ دونوں بہت مختلف ہیں پنجاب کے گناہوں میں وسیب کو شامل کرنا اس خطے کے لوگوں کے ساتھ زیاتی ہے پاکستان بننے سے لے کر آج تک پنجاب والوں کا جمہوریت سے زیادہ غیر جمہوری قوتوں کے اوپر یقین ہے اور سب سے زیادہ ساتھ بھی ان کا پنجابیوں نے دیا جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاہو یاپھر پرویز مشرف کا بوٹ کا سب سے زیادہ احترام پنجاب نے ہی کیا اور انھوں نے اپنی روایات کو برقرار رکھا مریم نواز جو ووٹ کی عزت کے نعرے لگا رہی تھی چند دن پہلے آج تو وہ بات چیت اور مفاہمت کے لیے بے تاب ہورہی ہیں اور اس کی باتیں بھی کررہی ہیں پھر کیا یہ قوم کو بے وقوف بنا رہے ہیں یاپھر خود بے وقوف بن رہے ہیں یہ سوال آپ کا ہے مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ اور ورکروں کو دیکھاجائے تو انھوں نے ہمیشہ مفاہمت ہی کی ہے پنجاب کے سیاسی لیڈروں کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :