وہ لڑکی لال قلندر تھی

منگل 28 دسمبر 2021

Umer Nawaz

عمر نواز

جب یہ تحریر لکھنے کی کوشش کی تو ذہن میں خیال آیا کہ بے نظیر کے حوالے سے لکھنا ہے کیوں نا ایک نئے انداز میں لکھا جائے۔
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے آنگن میں آنکھ کھولنے والی بے نظیر ملکی سیاست کا ایک درخشاں ستارہ بنی،صرف نام ہی نہیں ان کے کام بھی بے نظیر تھے،جوانی میں قدم رکھا تواعلیٰ تعلیم کےلئے برطانیہ اور امریکہ  کا انتخاب کیا۔


تعلیمی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے ساتھ سیاسی میدان میں  بھی کمال کردکھایا، بھٹو کی قید سے لیکر پھانسی تک، آمریت کے دور میں بینظیربھٹو نے ہرمصیبت اور مشکل  کا ثابت قدمی اوردلیری سے مقابلہ کیا۔

(جاری ہے)


میری یادوں سے اگر بچ نکلو تو وعدہ ہے میرا تم سے
میں خو د دُنیا سے کہہ دُوں گی کمی میری وفا میں تھی
عوام، جمہوریت، انسانی حقوق، دفاعِ وطن اور آئینِ پاکستان کے لئے ان کی خدمات پر جب بھی کوئی مفکر ، صحافی اور دانشور قلم اٹھائے گا تو وہ سیاسی، آئینی، دفاعی، معاشرتی اور معاشی میدان میں محترمہ کی خدمات کو سنہری حروف میں درج کرے گا۔


بینظیربھٹو نے ضیا الحق جیسے آمرِ مطلق اور پھر پرویز مشرف جیسے ڈکٹیٹر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور عوام کے غصب شدہ حقوق ان کو واپس دلائے۔
اگر آج یہ ملک جمہوریت اور جمہوریت سے وابستہ امنگوں کے عہد میں زندہ ہےاور طاقت کے ایوان اگر آج عوام کے منتخب نمائندوں کی سیاسی دسترس میں ہیں تو اس کا کریڈٹ محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کو جاتا ہے،جنہوں نے ماضی کے مطلق العنان آمروں اور غاصبوں کے شکنجے سے اقتدار واپس لیکر عوام کی جھولی میں ڈالا۔


ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستاں میں
ہمیں بھی یاد کرلینا چمن میں جب بہار آئے
[شہید بی بی کی زندگی ایک نظر]
بے نظیر بھٹو 21 جون انیس سو تریپن میں پیدا ہوئیں اور محترمہ بے نظیر ذوالفقارعلی بھٹوبیگم نصرت بھٹو کی سب سے بڑی بیٹی تھیں،بے نظیر بھٹو نے ہارورڈ یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی جس کے بعد انہوں نے برطانیہ میں جلا وطنی کی زندگی گزاری۔

انیس سو اٹھاسی میں ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں پاکستان پیپلز پارٹی نے واضح کامیابی حاصل کی اور دسمبر انیس سو اٹھاسی میں بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔
بے نظیر بھٹو سترہ فروری انیس سو ستاسی میں نواب شاہ کی اہم شخصیت حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں تھی، محترمہ بے نظیر بھٹو کے تین بچے جن میں بلاول بھٹو زرداری، بختاور بھتو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری شامل ہیں۔


محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو سات اگست انیس سو نوے کو صدر اسحاق خان نے بدعنوانی اور کرپشن کی وجہ سے برطرف کر دیا جس کے بعد انیس سو ترانوے کے عام انتخابات میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی اور بے نظیر ایک مرتبہ پھر وزیرِاعظم بن گئیں ۔ انیس سو چھیانوے میں پیپلز پارٹی کے ہی صدر فاروق احمد خان لغاری نے بے امنی اور بد عنوانی، کرپشن کے باعث بے نظیر کی حکومت کو پھر سے برطرف کر دیا۔


انیس اکتوبر دو ہزار سات میں بے نظیر بھٹو کراچی واپس آئیں جہاں ان کے قافلے پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تاہم حملے میں بے نظیر بھٹو محفوظ رہیں لیکن ستائیس دسمبر 2007 کو بینظیر بھٹو راولپنڈی کے مشہور لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کے بعد واپس روانہ ہوئیں۔ کارکنوں کے نعروں کا جواب دینے کے لیے جونہی گاڑی سے سر باہر نکالا، قاتل نے گولی چلا دی، یوں دختر مشرق ہمیشہ کےلیے ابدی نیند سو گئیں۔


جو قتل ہوئی وہ خوشبو ہے
تم کتنا رستہ روکو گے
وہ اک ایسا جادو تھی
جو سر پر چڑہ کر بولے گی
ہر زنداں کے ہر مقفل کو
وہ چابی بن کر کھولے گی
شور ہواؤں کا بن کر
وہ آنگن آنگن ہولے گی
تم زندہ ہوکر مردہ ہو
وہ مردہ ہوکر زندہ ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :