جن کی آنکھوں میں کوئی عکس ندامت نہ ھو

پیر 31 اگست 2020

Urooj Asghar

عروج اصغر

بلاشبہ سندھ حکومت کی عدم توجہی اور غیر سنجیدگی اور سیاسی بنیادوں پر انتظامی تقسیم اور لسانی بنیادوں پر فیصلوں نے کراچی کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا ہے مگر ایک بہت اھم پہلو جس نے ان تمام عوامل کو ھوا دی اور ھم یکسر انہیں نظر انداز کئے جارہے ہیں وہ کراچی والوں کی اور عام عوام کا کراچی کے ساتھ انتہائی سوتیلا سلوک ہے ۔


شہر میں سیاسی اور مذہبی فلاحی تنظیموں کے علاوہ چند تیسرے درجے کی شہری تنظیمیں موجود ہیں جنھیں نہ تو عام آدمی کی مدد حاصل ہے اور نہ ھی ایک عام کراچی والا اس سے متعلق کوئی ذمہ داری محسوس کرتا ہے ۔
جس شہر میں گھر کا گند گلی میں ڈالنے کا رواج ھو اور گلیوں کو نالوں کی طرح دیکھا جاتا ھو اور جائز اور ناجائز تعمیر کی کوئی تمیز نہ ھو اور ندی نالوں پہ بستیاں آباد کرتے وقت کسی شہری کو یا حکومتی ادارے کو کوئی اعتراض نہ ہو، ناجائز تعمیراتی کام چند سکوں کے عوض ہوجائے  تو ایسے میں کسی بربادی کی ذمہ داری سے پہلو تہی عقل سے بالاتر ہے ۔

(جاری ہے)

اس گند کے ذمہ دار تمام متعلقہ لوگ بشمول تعمیر کرنے والے شامل ہیں۔
کروڑوں کے گھر اور اربوں کے تجارتی مراکز رات و رات بن جاتے ہیں مگر اس کے سامنے کی گذر گاہ اور سڑک کے بارے میں کوئی سماجی ذمہ داری ادا نہیں کی جاتی اور چند ھزار سے گلی کی صفائی تک کو کوئی تیار نہیں ھوتا۔
طارق روڈ، صدر اور نرسری جیسے علاقوں میں ھزاروں ٹیکس چور کاروبار موجود ہیں مگر دھائیوں تک ایک معمولی سی سڑک کیلئے کسی مسیحا کا انتظار انتہائی بے شرمی سے کرتے رھتے ہیں اور عام عوام کے کان پر بھی کوئی جوں نہیں رینگتی ۔

‏ یاد رکھیے جہاں ایک عام آدمی کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں ھوتا وھاں حکومتی توجہ کا سوال ھی پیدا نہیں ھوتا۔ خدا کرے اس بحرِ عذاب کی موجیں عوامی عقل میں کوئی اضطراب پیدا کرسکیں ۔
جن کی آنکھوں میں کوئی عکس ندامت نہ ھو
ان کے ھونٹوں پہ  شکوے  اچھے  نہیں  لگتے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :