گندے بیج - کانی فصلیں

جمعرات 24 دسمبر 2020

Urooj Asghar

عروج اصغر

۱۹۵۴ میں نجانے جرنل غلام حسین نے خواجہ ناظم الدین کو کیا چکنی چپڑی باتیں کہیں کہ اس وقت وہ شریف النفس شخص ھمارا مستقبل انجانے میں محمد علی بوگرہ جیسے کرائے کے ٹٹوؤں کے رحم و کرم پر چھو ڑ گیا اور پھر گندے پانی کا یہ چشمہ ملک کو دولخت کرتے ھوئے جمہوریت کی کئ کشتیاں پلٹتا رھا۔ ابھی تک معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے بوگرے گاھے بگاھے وارد ھوتے رھتے ہیں- یہ مافیا وردیوں سے اتر کر بیوروکریسی میں سراعیت کرتا رھا اور پھر ملک کے ھر ارادے میں گھستا چلا گیا - چونکہ سیاستدان بھی انھیں نرسریوں کی پیداوار تھے اس لئے وہ بھی انھیں کا حصہ بنتے گئے اور نئے وارد جو کہ سیاست کی ان گہرائیوں سے یکسر ناواقف تھے انھیں بھی اسی مافیا نے آلیا اور خبر تک نہ ھونے دی ۔


حالیہ کچھ بحرانوں سے وزارت عظمی پہ بیٹھے تقریبا نیم سیاسی اور اس نظام سے باھر پہلے وزیراعظم کا ماتھا ٹھنکا تو وہ بھی حیران تھا کہ اس شجر کی جڑیں کتنی پرانی ہیں اور کسی نہ کسی حد تک پوری قوم اس مزاج میں شامل ہے ۔

(جاری ہے)

ھماری ماں کی تربیت سے لے کر ھمارے باپ کے سائے میں یہ جرائم مقدر بن کر اتر چکے ہیں اور اس کی نتیجے میں تیار ھونے والے نسل خطرناک حد تک اس کی عادی ھو چکی ہے۔


چینی کا بحران ھو یا آٹے کا یا پھر حالیہ پیٹرولیم کے بحران کی رپورٹ - جس پتھر کو اٹھائیں گے اسی کے نیچے سے یہ مافیا برآمد ھوگا اور أپ سب کچھ جانتے ھوئے بھی بے بس رھیں گے۔
کیونکہ عوام میں اس کے خلاف جذبات محض باتوں کی حد تک ہیں اور اسکے خلاف کسی تحریک کی شکل میں کبھی سامنے نہیں آتے ۔ کبھی عوام نے کسی مہنگی چیز پر اس چیز کا بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ چینی جس کا انسانی بنیادی ضرورت سے کوئ تعلق نہیں اس کی گرانی پر انتہائی غم و غصہ کا اظہار کیا جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔


ھمارے کسان کو بھی اپنا استحصال کروانے کا شوق ہے اور کسانوں کی کوئی باقاعدہ تنظیم موجود نہیں جو کمیشن ایجنٹ کا متبادل دے کر اور شوگر ملوں کی بجائے گڑ بنا کر بیچنے جیسی کسی تجویز کو عملی جامہ پہنا سکے۔ غرضیکہ ھمیں من حیث القوم مافیا کے ھاتھوں میں کھیلنے کا شوق ہے اور یہی وجہ ہے کہ ھم کسی بھی مافیا کے خلاف کسی فیصلہ کن تحریک کا حصہ نہیں بنتے ۔


ھماری قوم کے پاس وہ بنیادی عقل اور فہم سرے سے موجود ھی نہیں کہ کسی بہتر کل کی توقع کی جاسکے ۔ عمومی طور پر ھماری ذھنی پسماندگی نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ ھمارا پڑھا لکھا شخص بھی مکان بنا کر کرائے پر دے کر گھر بیٹھے پیسے کمانا ھی کامیابی سمجھتا ہے یا تو پھر پلاٹ خرید کر اس کی قیمت کے بڑھنے کا انتظار کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ھم۔ نے پاک امریکہ تعلقات سے امریکی اور یورپی منڈیوں تک تجارتی رسائی کے بدلے امداد کو توجہ دی اور اب امید لئے بیٹھے ہیں کہ چین ھمارے ھاں بنیادی سہولتوں کا جال بچھائے گا جو ھمارے کرائے کی ترقی کی معراج ھوگی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :