
چِکڑ چھولے
بدھ 16 دسمبر 2020

عروج اصغر
میری سیاسی بصیرت بالکل سطحی سی ہے مگر حیرت اس بات پہ ھوتی ہے جو بات مجھے سمجھ میں آتی ہے اسے مورثی قائدین کیونکر سمجھنے سے قاصر ہیں ؟ اگر اس قدر نااہل حکومتی وزراء کسی اور حزب اختلاف کو میسر ھوتے تو چند ماہ میں ھی تختہ الٹ کر تختہ دار سجا دیا جاتا خاص کر جیسے حکومت اپوزیشن کے خالی غبارے میں بار بار ھوا بھرنے کی کوشش کرتی ہے ۔
ایک باریک بات کو ھر موٹی عقل والے کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اگر ھو سکے تو حزب مخالف کو ارباب احتجاج تک بھی پہنچانے کی ضرورت ہے کہ اب تک کی ملکی تاریخ میں کسی اپوزیشن کا ایسی کسی حکومت سے پالا نہیں پڑا جو اب موجود ہے اس لئے روایتی پھونکوں سے یہ چراغ بجایا نہ جائے گا۔
(جاری ہے)
پہلے یا تو کینگز پارٹیاں ھوتی تھیں جن کی عوامی اساس محدود ھوتی تھی یا تو عوامی مقبول ھوتی تھیں جن کی ریاست سے بنیادیں کمزور ھوتی تھیں اس لئے مخالفین کیلئے نعرے بازی سے سودے بازی تک کا سفر قدرے آسان ھوتا تھا۔
مزید کام 58-2bجیسی قانونی بے ساکھیاں آسان کردیتی تھیں یا پھر راولپنڈی ویسٹریج کے فرنگی دروازوں کی کھنکھناھٹ سے بھی کئی امراض میں افاقہ ھوجاتا تھا اور حالت ذیادہ خراب ھونے پر ایمرجنسی تک نوبت آجاتی تھی ۔ مگر اس دفعہ ریاست اور عوامی مقبولیت کا بہترین مرکب ایک پہاڑ کی صورت کھڑا ہے ۔
اس لئے PDM (Property Defending Movement) کی بیل مستقبل قریب میں کسی منڈھے چڑھتی نظر نہیں آرہی ۔
باقی جہاں تک جلسوں کی بات ہے تو محض کارکنان کے آنے سے بات نہیں بنتی اصل کام ووٹر کو گھر سے نکالنا ھوتا ہے۔ کیمرے کی آنکھ محدود ھوتی ہے جو چند ھزار کے بعد آندھی ھوجاتی ہے اور زرا سی مہارت سے دس ھزار بھی پچاس ھزار دکھائے جا سکتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ نالائقی اور نااہلی کا زبردست مقابلہ جاری ہے ایک طرف حکومت اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے خود اپنا مزاق بنا رھی ہے اور حکومتی ترجمان ھر روز سستی تفریح کا سامان میسر کئے جا رھے ہیں جبکہ اپوزیشن اپنے جلسوں میں اچکزئی جیسے خالی کارتوسوں اور مولانا جیسے زائد المیعاد سیاستدانوں کا میلا لگا کر اپنا اثر کھوتی جا رھی ہے۔ جس ہے ھر جلوس کہ اختتام پر “ابھی لندن” کرسیوں سے خطاب کرتے ھوئے اپنی دھائیوں پہ محیط بے بسی کا ذکر کرتے ہوئے بے حس عوام الناس کو اس بات کا یقین دلا رھا ھوتا کہ اس کہ ضعیف کندھوں کے انگ انگ میں بجلی بھری ہے جو چوتھی دفع موقع ملنے اور ارد گانی تیزی سے معیشت کی رگوں میں دوڑ کر مہنگائی کے جن کو بالکل ایسے قابو کرلے گی جیسے اقتدار میں آنے کے بعد اتفاق گروپ نے ترقی کو قابو کیا تھا۔
یہ کسقدر بد نصیبی کی بات ہے نہ تو اپوزیشن نے کوئی عوامی فلاح کا منصوبہ ظاھر کیا جس پر انھیں سنجیدہ لیا جاتا اور نہ ھی حکومت میں کوئی بلوغت نظر آئی کہ وہ اپوزیشن کو دوام بخشنے کے بجائے انتظامی معاملات کو درست کرے اور بھارتی کسانوں کے احتجاج سے لے کر خلیجی ممالک میں ھونے والی تبدیلیوں پر وطن عزیز کے مقاصد کے حصول کیلئے کام کرے ۔
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عروج اصغر کے کالمز
-
سفارتخانہ کیسے بہتر بنایا جائے؟
جمعہ 4 جون 2021
-
نادیدی قوم - نابینا ریاست
بدھ 28 اپریل 2021
-
گندے بیج - کانی فصلیں
جمعرات 24 دسمبر 2020
-
مرنے سے پہلے
منگل 22 دسمبر 2020
-
چِکڑ چھولے
بدھ 16 دسمبر 2020
-
سفارتخانہ اور سفارشخانہ
بدھ 25 نومبر 2020
-
نجانے ھم خدا کے کیسے بندے ہیں
بدھ 18 نومبر 2020
-
حرکت تیز تر اور سفر آہستہ آہستہ
ہفتہ 24 اکتوبر 2020
عروج اصغر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.