مرنے سے پہلے

منگل 22 دسمبر 2020

Urooj Asghar

عروج اصغر

زندگی،کرہ ارض پر خداوند کریم کی طرف سے بنی نوح انسان کو سب سے بڑی نعمت کے طور پر دی گئی۔ جس میں دوسری مخلوقات کے حقوق اور ذمہ داریوں کا ایک فطری نظریہ دیا گیا ۔جس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا نہ صرف دوسرے جہان میں حساب کتاب ھوگا بلکہ ایک بڑی قیمت دنیا میں بھی چکانی ھوگی ۔ اس منزل تک پہنچنے کا صرف شعور ہے، جو زندگی کے باقی عوامل کا تعین کرتا ہے۔

شعور کو پرکھنے کا ایک بہت ھی سادہ طریقہ یہ ہے کہ کسی انسان سے دوسرےانسانوں کو خاص طور پر انکو جن کا اس سے بلاواسطہ تعلق ھو یا بالفاظِ دیگر بالخصوص وہ لوگ جو اس کے تعلق کے نا ھوں, ان کی زندگیوں میں یہ انسان
ایک خوشگوار تبدیلی کا کس حد تک مؤجب  بنا ۔
لامحالہ اس نتیجے میں کی جانی والی تحریک کے اثرات اقربا پر ضرور پڑیں گے بالخصوص اولاد پر کیونکہ منبع کے قریب سے ذیادہ استفادہ ھونا فطری بات ہے
اولاد کی تربیت وہ کم سے کم امید ہے جو ایک باشعور شخص سے متوقع ہے ۔

(جاری ہے)

اس کا موازنہ بے حد آسان ہے کہ کو ئی شخص کسی باشعور والدین اور معاشرے کا حصہ ہے یا جنگل میں رھنے والا کوئی وحشی جو محض موقع کی تلاش میں ھوتا کہ کب وہ کسی دوسرے جاندار کو چیر پھاڑ کر اپنی پیٹ کی ختم نہ ھونے والی آگ بجھا سکے۔
مختصرا یہ کہ اگر ھم کچھ اور نہ بھی کرسکے تو بھی اپنے انسان ھونے کا کم سے کم ثبوت یہ چھوڑ کر جا سکتے ہیں کہ ھم نے اپنی اولاد میں وہ بنیادی مادہ پیدا کردیا جو آگے چل کر ھمارے نامکمل مقاصد کی تکمیل کی کوشش کرے گا اور باشعور اولاد کو سمجھنے کے لئے چند بنیادی نقاط کو دیکھنا ضروری ہے ۔


مثلاً کیا آپ کی اولاد کسی علم کے حصول کو اس نیک نیتی سے اپنی زندگی کا مقصد سمجھتی ہے کہ اس میں مہارت حآصل کرکے عوام الناس کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی پیدا کرکے اطمینان قلب حآصل کیا جائے یا پھر کسی مادی ترقی یا مال و دولت اکھٹا کر کہ شاہانہ طرز زندگی کو اپنا نصب العین بناتی ہے ؟ کیونکہ مادی ترقی تو ایک سایہ ہے جو علم میں مہارت پر لامحالہ حاصل ھو جائے گا اور شاہانہ طرز زندگی تو بدرجہ اتم ان عناصر میں موجود ہے جو خدمت کے اطمینان قلب میں موجود ہیں۔


یعنی علم و عمل اصل ہے اور مادی ترقی سایہ ہے جو اصل کے ساتھ آپ کو کسی نہ کسی درجے میں مل ھی جائے گا اس لئے جستجو اصل کی ھونی چاہئے نہ کہ سائے کی۔
کیونکہ اگر آپ نے اپنی اولاد کے خمیر میں سائے کو منزل کرلیا تو وہ اس کا اصل، جرائم بھی ھوسکتے ہیں ۔
اگر کل آپ کا بچہ اپنی کامیابی یوں بتائے کہ وہ اسی گز کے مکان سے نکل کے چار کنال کے گھر میں آگیا اور آٹھ سو سی سی سے آٹھ سلنڈر گاڑی کا مالک بن گیا تو یہ یقینا گھاٹے کا سودا ھوگا کیونکہ شعور یافتہ شخص اپنی خدمات پہ فخر کرتا ہے یا تو وہ اپنی کسی کتاب کا ذکر کرے گا یا کسی تحقیق کے بارے میں بات کرے گا یا کسی اپنی علمی اور عملی کاوش کا ذکر، اپنی اصل کامیابی سمجھتے ہوئے کرے گا۔


کیونکہ مالی مقاصد تو اسے بحرحال کسی علمی معراج کی صورت میں حاصل ھو ھی جائیں گے جن کی حیثیت ثانوی ہے اور انھیں کامیابی گرداننا عقل سے عاری رھنے کی نشانی ہے ۔
اسی پیمانے کو سامنے رکھتے ھوئے آپ کسی بھی سامنے بیٹھے شخص کے شعور کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں کہ وہ کس بات کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے اور آپ پر وہ مالی طور پر اثر انداز ھو رھا ہے یا علمی اور شعوری طور پر ۔

کیا اس کے ساتھ گذرے چند لمحات سے آپ میں کوئی فکری تبدیلی آئی یا آپ کے شعروی رجحانات میں کوئی بہتری آئی یا پھر آپ کے مال و زر کمانے کی تگ و دو کو وسعت ملی اور آپ کی مادی حوس اور حرس میں اضافہ ھوا؟
کیا نیت گفتگو پیسے کا حصول اور اس کے انگنت طریقے رھے یا پھر کسی ایسی مثبت سرگرمی پر سیر حاصل گفتگو ھوئی, جسے کسی خیر کے پہلو سے بھی وابسطہ کیا جا سکتا ہے ۔


سادہ سی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ تاریخ کو یہ تو یاد ہے کہ محمد بن قاسم کی فتوحات کیا ہیں مگر یہ غرض نہیں کہ مال غنیمت کتنا اکھٹا کیا تھا۔ تاریخ یہ تو بتاتی ہے کہ محمد علی جناح نے کون کون سے کارنامے انجام دے کر پاکستان حاصل کیا مگر قائداعظم نے مہنگے ترین وکیل کے طور پر کتنے ہیسے کمائے وہ یاد نہیں ! بالکل اسی طرح کل تاریخ بھول جائے گی کہ بل گیٹس اور اینٹل اینڈریو مور کے پاس کتنی دولت تھی مگر جدید کمپییوٹرز کے لئے ان کی خدمات ھمیشہ یاد رھ جائیں گی ۔


چناچہ مرنے سے پہلے ھمیں اپنے انسان ھونے کا ایک حقیر سا ثبوت کم سے کم اولاد کی شکل میں ضرور دے کر جانا چاہئے جن کے پاس وراثت میں دیا گیا شعور اثاثوں کی فہرست میں سب سے اوپر ھو اور ھماری اولاد کی دینی، انسانی اور معاشرتی ترجیحات اگلے جہان میں بھی ھمارے درجات کی بلندی کا سبب بنتی رھیں ۔ ناکہ دولت کے حصول کی نیت لئے انسان نما خونخوار بھیڑیے چھوڑ جائیں جن کو ھم اپنی بنیادی عقل بھی نہ دے سکیں کہ ھمیں سب کچھ دینے والی ذات اللہ العرب العزت کی ہے ۔ دن کا آغاز اس کے حضور فجر کے بروقت سجدے سے ھونا چاہئیے کیونکہ دفتر اور کام پر وقت سے پہنچنا ایک سایہ ہے حقیقت نہیں ہے اور اگر حقیقت میں کمی نہ کی گئی تو سایہ بھی باعث رحمت ھوگا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :