سفارتخانہ اور سفارشخانہ

بدھ 25 نومبر 2020

Urooj Asghar

عروج اصغر

کچھ روز قبل چند زود ھضم اور قابلِ فہم دوستوں سے ملاقات ھوئی اور گذشتہ سے پیوستہ منصوبے کے تحت ایک کاروباری نقطہ زیرِ بحث آیا اور ھلکی پھلکی تانک جھانک کے بعد طے یہ پایا کہ جنوبی کوریا کی ایک کمپنی سے آئیڈیا پر رائے لی جائے چناچہ غیر مرئی تاروں میں دوڑنے والی ھوا کی دوش پر ایک پیغام بھیج دیا۔ آگلے ھی دن صبح سعودیہ میں موجود جنوبی کوریا کے سفارتخانے سے ایک پاکستانی یا بھارتی مسلمان نام سے ایک جواب آیا جو کہ ان کے کاروباری شعبے سے تعلق رکھتا تھا ۔


تحقیق کرنے پہ معلوم ھوا کہ جس کمپنی کو ھم نے کوریا میں پیغام بھیجا تھا اس کی کاروباری مدد کیلئے سفارتخانے میں ایک شعبہ مخصوص ہے جس سے ھزاروں اور کمپنیاں منسلک ہیں اور جنوبی کوریا کی مصنوعات اور کاروبار کی تشہیر اور ترقی کے لئے کام کرتا ہے جس میں مزید توجہ طلب بات یہ ہے کہ دلچسپی لینے والے کے کاروبار قومیت اور زبان کے حساب سے سفارتخانہ میں مدد گار موجود ھوتے ہیں تاکہ معلومات بہم اور سہل انداز سے پہنچائی جائیں اور تعلقات میں آسانی پیدا کی جائے تاکہ مطلوبہ مقاصد کو بہترین انداز میں پایہ تکمیل تل پہنچائے جا سکے ۔

(جاری ہے)


جس طرح معاملات آگے بڑھے ایسا محسوس ھوا کہ ھم کھچے چلے جارہے ہیں اور ھمیں ھر طرح سے اس بات کا یقین دلایا جا رھا ہے کہ شاید دنیا میں کہیں اور وہ سب کچھ نہ مل پائے گا جو جنوبی کوریا میں ہے ۔
باھر ہے یہ سمجھانے کو فقط ایک مثال ہے اور یقینا دوسرے کئ ممالک میں بھی حب الوطنی وفاداری اور غیرت کا یہی حال ھوگا اور یقینا یہ ھم جیسی نیم بے ہوش اور خواب خرگوش کے مزے لیتی قوم کے لئے تو انتہائی لمحہ فکریہ تھا جس کی فطرت میں گھر کی صفائی کا مطلب گلی میں کچرا پھینکنا ہے اور جب تک ذاتی توصیف سنائی نہ دے تو ملک کی عظمت کا ایک جملہ بھی ناقابل برداشت سمجھتے ہیں بحرحال دل خون کے آنسو رو رھا تھا کہ ھم کہاں ہیں۔


احساس ھوا کہ ھم تیسری نہیں بلکہ شاید آخری سطح کی دنیا ہیں جہاں نظم،شعور، ملت، وحدت، انسانیت اور علم کو مبہم سا تصور ہے اور شاید سرکاری ذمہ داریوں کا مطلب تفریح، غل غپاڑہ اور محض اپنے خاندان کی خدمت ہے۔
بعد میں ھمیں آمادہ کیا گیا کہ ھم وقت ملنے پر جنوبی کوریا بھی جائیں گے اور ھر ممکن تعاون اور اخراجات میں مدد فراھم کی جائے گی بشرطیکہ ھم ابتدائی طور پر کاروباری معائدے میں شامل ھو جائیں اور اس سے متعلق اسرار و رموز طے کرلیں۔


پھر کئی حوالوں سے ملک میں موجود سیاحت اور دوسرے وسائل سے بھی تعارف کروایا گیا ۔ آنے والے نمائشیں اور کاروباری واقعات پر ایک تفصیلی مجلس کی گئی اور ساتھ ساتھ ھمارے ھم وطن ان افراد کو بھی ہمارا حوالہ ان کی اجازت سے دیا گیا جن کا متعلقہ کاروبار سے جنوبی کوریا کے ساتھ ایک اچھا تجربہ رھا ہے۔
سفارتخانے بلا کر خوب خاطر تواضع بھی کی گئی یعنی محسوس یہ ھوا کہ جیسے کوئی رشتے کی بات چل رھی ھو اور میزبان قدموں میں مرے جا رھا ھو۔


اب ھم زرا اپنا تصور کریں اور محاسبہ کریں کے کبھی زندگی میں ھم نے اپنی ملک اور قوم کیلئے اس نہج کا عشرے عشیر بھی سوچا ھو خاص کر انھوں نے جن کو یہ منصب یہ ذمہ داریاں دی گئیں اور ان پر نوازشات کی بارش کی گئی۔
ھمارے لئے قومی دن کی اھمیت صرف تعطیل کی حد تک ہے اور پرچم کی حرمت صرف نغموں کی حد تک اور قوم کی فکر صرف دوسروں پہ کیچڑ اچھالنے اور اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی حد تک ہے
شاید ھمیں قومیت اور حب الوطنی کا جو سبق آج پتا چلا پہلے کبھی نہ ملا تھا ۔

غالب نے کیا خوب کہا تھا کہ
“رگوں میں دوڑتے رھنے کے ھم نہیں قائل”
“آنکھ سے جو نہ ٹپکے وہ لہو کیا ہے”
نجانے ھم اتنے ارب کھرب روپے اپنے غریب آدمی کے خون سے نچوڑ کر پوری دنیا میں پھیلے اپنے سفارتخانوں کی نالیوں میں بہا دیتے ہیں جن منہ ان سیاہ کنوؤں میں جا کھلتے ہیں جو شاید ابد تک پیاسے ھی رھیں گے اور عرض پاک کی دھرتی ایڑیاں ھی رگڑتی رھ جائے گی کہ کاش کوئی دیداور پیدا ھو جس میں کسی بندہِ صحرائ کی رمق ھو جس کی راہ دیکھتے دیکھتے نجانے کتنے شاہین، کرگس کی موت مارے گئے۔


نجانے ھم کب تک دستکاری اور پارچہ بافی، قالینیں اور کپڑے کے بیس سال پرانے پوسٹر لگا کر بیچنے کی کوشش کرتے رھیں گے اور دنیا کو اپنے بوسیدہ نہری نظام کے بھشتی فائدے بتاتے رھیں گے اور دوسو سال ٹیوب ویل لگانے کو کارنامہ گردانتے رھیں گے ۔
ھمارے کب اپنے سفارتی سرکاری اداروں میں پنجابی پٹھان کی چھاپ سے باھر نکل کر کبھی پاکستانی یا کم سے کم صرف انسان بن کر کب کام کریں گے ۔


ایک پالتو جانور بھی جس گھر سے کھاتا ہے اس کا وفادار ھوتا ہے اور جہاں بیٹھتا ہے جگہ صاف کرکے بیٹھتا ہے مگر شاید قدرت نے ھم سے یہ حس بھی چھین لی ہے۔
ھمارے اھداف اپنے بچوں کے مستقبل اور بیرون ملک قیام کے دوران اپنے ذاتی معاشی استحکام اور بڑھاپے کی آسودگی کا سامان کرنے تک محدود ھوتے ہیں۔
ھماری پوری معاشی سرگرمی میں سفارتخانوں کا کوئی کردار نظر نہیں آتا ۔

سول سروس سے آنے والے بہترین دماغ دوسرے ملکوں میں جاکر ایک دوسرے درجے کے سیاح بن جاتے ہیں اور بجائے سفارتخانے کو ملکی کاروبار کی ترویج کا ذریعہ بنانے کے دوسرے ملکوں میں پرتعیش سرگرمیاں کرکے وھاں کی معیشت کو دوام بخشتے ہیں ۔ ھم نے آج تک کسی سفارتکار کے منہ سے نہیں سنا کہ اس نے دوسرے ملک کا بخوبی جائزہ لے کر اپنے ملک میں موجود وسائل سے ممکنہ کاروباری یا سماجی یا سیاسی اشتراک کرنے کی کوئی واضع مثال قائم کی ھو۔


ھمارے خربوز ےاس قدر بد نسل ھو چکے ہیں کہ دوسروں کو دیکھ کر رنگ بھی نہیں پکڑتے۔ھمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں حالات اور ملک کی مناسبت سے وہ سفارتکار تیار کیے جائیں جو اس ملک کی زبان اور حالات کو بہتر سمجھتے ھوں اور اپنی تعیناتی کے عرصے میں طے شدہ مقاصد حاصل کرنے کے پابند ھوں۔ ھماری صرف اس بات سے غرض ھے کہ ھمارے قریبی دوست اور خاندان والے ھر ممکنہ حد تک کچھ وقتی گنگا میں اشنان کرلیں اور ھماری حوس اور بھوک کو ایک غیر قدرتی تسلی مل جائے ۔


جب تک ھم سفارتخانوں کے بجائے سفارشخانے بناتے رھیں گے تب تک ھم ھر مرض کا ملبہ یہودی لابی اور بھارتی سفارتکاری کی کامیابی پر ڈالتے رھیں گے اور ھر بار سازش کی سوزش کا بہانہ کرکے اپنی آنے والی نسل کیلئے قومی وقار کا ایک پژمردہ لاشہ سمندر کی سطح پر تیرتا چھوڑ جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :