نجانے ھم خدا کے کیسے بندے ہیں

بدھ 18 نومبر 2020

Urooj Asghar

عروج اصغر

نجانے ھم خدا کے کیسے بندے ہیں
سب دیکھتے ہیں پھر بھی اندھے ہیں
جدید دور کی ایجادات نے فاصلے سمیٹ کر دنیا ھمارے ھاتھ پہ لا رکھی ہے اور اب امید یہ تھی کہ دنیا ایک معاشرے کی طرح برتاؤ کرے گی اور ھم دنیا میں ایک دوسرے کو ذیادہ بہتر سمجھ کر اور قریب محسوس کرکے ایک ذیادہ موثر سوچ اور فکر کے ساتھ کرہ زمین پر ذیادہ بہتر زندگی کی تمنا کرسکیں گے ۔

ابھی میرا مشاہدہ ابتدائی اور سرسری ھی سہی مگر کچھ عوامل میرے لئے فرط حیرت اور افسوس کا باعث ہیں کہ ھم سب کچھ دیکھتے اور جانتے ھوئے بھی ایک نسبتاً بڑی اھمیت کی چیز کو محض اس لئے موضوع بحث نہیں لاتے کہ ھم یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا ھم سے لینا دینا نہیں ہے اور ایک انتہائی حقیر درجے کی خبر پر سارا دن شہ سرخیاں اور پوسٹرز لگا رھے ھوتے ہیں جن کی اپنے آپ میں بھی کوئی وقعت نہیں ہے اور دوسروں کا وقت بھی ضائع ھوتا ہے۔

(جاری ہے)


چند دن قبل جب ھم علامہ اقبال کے موضوع پر گھسے پٹے اور بوسیدہ سطحی قسم کے حوالا جات سے ایک دوسرے کا وقت برباد کررھے تھے عین اسی وقت ایک بہتر حوالہ ھمارے سامنے موجود تھا جس میں علامہ صاحب کی سوچ کا عکس بھی موجود تھا اور ایک بہتر لائحہ عمل کے طور پرہم اسے ایک زندہ مثال سے تعبیر کرکے اقبال ڈے کی بہتر عکاسی کرسکتے تھے۔
مگر افسوس ھم کوھلو کے بیل کی طرح اور مدھوش شتر مرغ کی طرح اپنی تنگ حدود سے آگے دیکھنے کی صلاحیت ھی نہیں رکھتے ۔

بظاہر پڑھی لکھی نظر آنے والی باوقار شخصیات ھوں یا معاشرے اور سیاست کے چیمپئن کسی ایک کو بھی اس بصیرت کی توفیق نہ ھوئی کہ ایک انتہائی اھم اور بہت بڑے واقعے کو عوام الناس کے سامنے ایک تجزئیے کے طور پر رکھے ۔
چناچہ بہت انتظار اور اضطراب کے بعد مجھے یہ کالم لکھتے ھوئے انتہائی افسوس ھو رھا ہے کہ ھم کس قدر اندھے ، بے حس اور بے جان ھو چکے ہیں کہ اپنے بھائیوں کے دکھ پر ایک لفظ اور ان کی کامیابی پر ایک جملہ تک بھی کہنے پر رگ و جاں پہ لقوہ کی کیفیت محسوس کرتے ہیں۔


کچھ بھارتی ریاستوں میں حالیہ انتخابات میں برادرِ محترم اسد الدین اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلیمین کی بالخصوص بھارتی حیدرآباد کے پرانے علاقوں سے شروع ھونے والی بظاہر ایک چھوٹی سی تحریک، ریاست بہار میں کئی نشستوں پر کامیابی حاصل کرتے ھوئے دوسرے علاقوں میں بھی اپنی جگہ بنا رہی ہے ۔
بظاہر ایک معمولی نظر آنے والی یہ تبدیلی صاحب نظر اور عقل کے لئے کسی طوفان سے کم نہیں ۔

برصغیر پاک و ھند میں محمد علی جناح تقریبا وہ آخری مسلمان رھنما تھے جنھیں اکثریتی مسلم ووٹ ملا ۔ ان کے بعد منقسم ھند میں رھ جانے والے مسلمان ھندو رہنماؤں کو اپنا ھندوستانی تشخص ثابت کرنے اور سیکولرزم کی چھاؤں میں سانس لینے کے لیئے ووٹ دیتے رھے جس سے ایک معمولی درجے کی گذر بسر ھو رھی تھی ۔
قدامت پسند بھارتیا جنتا پارٹی نے پہلی بار دائیں بازو کے ھندوں کو علیحدہ کرکے اپنی اکثریت کو ایک طرف کرکے جب ھندووتا کا ایک ایسا انتخابی تصور دیا جس میں مسلمان ووٹر اور مفاد کی کوئی جگہ نہ تھی - چنانچہ قائداعظم کی مادر علمی سے تعلیم یافتہ ایک ترقی پسند مسلمان رھنما اسدالدین اویسی نے دو قومی نظریہ کو ایک دفعہ پھر ایک نئی زندگی دیتے ھوئے گمنام مسلمانوں کو مذھبی بنیادوں پر منظم کرنے کی کوشش کی ھے جسے کشمیر کے سرکاری رہنماوں کی حالیہ عقل سے رجوع کرنے کی پالیسی نے بھی دوام بخشا اور علامہ اقبال کے وہ تمام افکار تازہ دم ھوگئے جو انھوں نے 1922 سے 1935 کے دوران مسلمانوں کو دیئے اور نتیجتاً پاکستان کی بنیاد رکھی گئی ۔


بھارتی مسلمان یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ مذھبی بنیادوں پر تقسیم کے قائل نہیں ہیں اس لئے وہ ہندو رہنماؤں پر ھی اکتفا کرتے رھے اور مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی بھی اسی سوچ پر مرکز کے اشاروں پر ناچتے رھے مگر دوسری طرف کے تعصب اور تنگ نظر سوچ میں کہیں کوئی تبدیلی نہ آئی اور بقول بی جے پی رہنما سبر منیم سوامی مسلمان کے ساتھ برابری پہ کوئی معاملہ نہیں ھوسکتا اور انہیں اچھوت اور شودر ھندوں یا پھر ان سے بھی کم حیثیت پر حاصل حقوق کی بنیاد پر زندہ رھنا ھوگا۔


اتفاقی طور پر یہ سب کچھ اس وقت ھو رھا تھا جب ھم یوم اقبال منا رھے تھے مگر ھم وھی دقیانوسی کتابی جملے بازی سے آگے بڑھ کر اقبالی تصور کی حالیہ تعبیر کو ایک موثر انداز سے اپنی اگلی نسل تک اور برصغیر کے مسلمانوں تک پہنچانے میں ناکام رھے اور اس سلسلے میں ھونے والی تمام تقریبات ایک گپ شپ سے ذیادہ کچھ نہ ثابت ھوئیں ۔
نجانے کب ھمارے دماغ پختہ ھونگے اور ھم شعور کی اس بلوغت کو پہنچیں گے جب ھم کبوتر کہ طرح آنکھیں بند کرنے کی پالیسی سے نکل کر اپنےادر گرد ھونے والی تبدیلیوں کا احاطہ کریں گے اور ان کی دور رس نتائج کا شکار ھونے سے پہلے ان سے نکلنے والے نتائج کیلئے خود کو صف آراء کریں گے تاکہ ھم ایک پہتر مستقبل کی طرف ھمہ جہت طریقے سے اپنی آنے والے نسل کو راھنمائی فراہم کرسکیں اور ان قوتوں کے ھاتھ مضبوط کرسکیں جن سے ھمارا مفاد وابسطہ ہے بالخصوص جن کا سوال ھم سے روز حشر ھوگا۔


افسوس کہ جو آج اقبال کی عملی تصویر بن کر سامنے آیا جس نے اقبال کے افکار کو جلا بخشی جس نے اقبال کے امین ھونے کا حق ادا کیا ھم نے ایک جملہ بھی اس کے لئے نہ کہا اور اپنی مجلسوں پانچویں کی معاشرتی علوم اور نویں میں مطالعہ پاکستان سے قصیدے پڑھ کر اپنے پہلو جھاڑ کر ایک دوسرے سے یوں تبادلہ کررھے ہیں جیسے کیمیا کے نوبل انعام سے پہلے سائنسدان مقالے تقسیم کرتے ہیں۔
تیری تحریر میں حقیقت کی قربت نہیں
تیرے قلم کو افسانوں سے فرصت نہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :