نادیدی قوم - نابینا ریاست

بدھ 28 اپریل 2021

Urooj Asghar

عروج اصغر

قیام کے فوراً بعد جس قسم کا ناچ گانا اس مملکت کے ساتھ کیا گیا بالکل عین ممکن تھا کہ نتیجہ وہ بھانڈ پن ہوتا جو آج بندر بن کر ہماری ہر گلی میں ناچ رہا ہے ۔ نہ تو عام آدمی کو شعور ہے کہ وہ کہاں جا رہا ہے اور نا ہی ریاستی مشینری کا کوئی طے شدہ دستور یا قانون ہے ! جو جتنا بڑا گلہ پھاڑ کر غل غپاڑہ کر سکتا ہے وہ اتنا بڑا مذہبی رہنما ہے اور سیاسی معیار یہ ہے کہ آپ کتنے بڑے لٹیرے ہیں اور حرام خوری میں آپ کو کتنی مہارت ہے ۔

خلائی مخلوق محکمہ زراعت سے مل کر گندے بیجوں سے پتلیاں تراشنے پر اسقدر مصروف ہے کہ پچھلی گلی میں تھانے دار کے سر پر پڑنے والے ڈنڈے کی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی ۔ جبکہ وزیراعظم صاحب کی بیچی نہ کسی بھینس سے کٹا ہوا نہ کسی مرغی سے انڈے نکلے ہیں پچھلے تین سال میں اور وہ ننگی پنڈلیوں والے کابینہ کے بچے جمہوروں کو کسی اناڑی مداری کی طرح گھمائے جارہے ہیں اور توقع کئے بیٹھے ہیں کہ ان بزداروں سے مہاتیر محمد پھوٹے گا جو چینی کو پانی سمجھ کر ترسی لائن میں لگی قوم کو عقل کی چوسنی سے سیراب کردے گا ۔

(جاری ہے)


جس مولانا پر عشروں سرسوں پیس پیس کر رنگ نکالتے ہیں وہ سیاسی نوسربازوں کا دلال بن جاتا ہے اور جو کھلاڑی دوسروں سے قدرے بہتر ہو وہ سیاست کے چوغے کے رنگوں کو کئی سال رگڑ رگڑ کر خود پر لگواتا ہے اور پہلی دھلائی میں ہی سارے رنگ ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے ریاست بے نظیر کے قتل کے بعد اور گزشتہ تین دن کٹھ پتلی بلوائیوں کے سامنے غائب ہوگئی تھی۔


اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مذہبی عقائد اور حقوق تو نسل در نسل تجربہ کار مسلکی ٹھیکیداروں کے بحق محفوظ ہیں اور اگر ایک وزیراعظم وزیروں سے کام کروانے کی بجائے ھر روز دین و دنیا پر ایک ہی لیکچر بار بار دے گا اور ناموس کا وہ جھنڈا اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کرے گا جس کے نیچے اکبری مارکیٹ سے ذیادہ دکانیں کھلی ہیں تو یقیناً اسے ترکہ سمجھ کر تڑکہ لگانے والے کسی بھی ڈھیلان کو ٹیلا سمجھ کر اس کی گھات موچی دروازے سے گزرنے والے ہر شخص کو فرانس کا سفیر سمجھ کر مارنا شروع کردیں گے ۔


تاریخ گواہ ہے کہ اندھی تقلید، شخصیت پرستی، لسانی یا فرقے کی بنیاد پر بہنے والا خون ہمیشہ رائیگاں جاتا ہے ۔ چاہے وہ برس ہا برس کی جدوجہد ہو یا حقیقی قربانیاں مگر ان کا انجام بد قماش قیادت کا وہ پاگل پن ہوتا ہے جو روز لندن سے شہیدوں کے خون پہ طنز بن کر برستا ہے اور یا پھر وہ نظریاتی سیاست جسے رات و رات ایک جعلی وصیت پر حاصل کرکے لوگوں کو جانوروں سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔


یاد رکھئے انقلاب باپ سے بیٹے کو ملنے والی کسی گملے میں اگائی جانے والی پارٹی کے لیڈر کی جگتوں سے نہیں بلکہ عوام کے اجتماعی شعور سے پیدا ہونے والی خود رو تحریک کو ایک قیادت میں مرتکز کرتا ہے جو شخصیات سے بالاتر ہوتی ہے وگرنہ اس کا انجام وہی ہوتا ہے جو وطن عزیز کے ان شریفوں کا ہوا جو بد معاشی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اور اب ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اپنے قد کا دسواں حصہ رہ گئے ہیں ۔جاری ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :