سفارتخانہ کیسے بہتر بنایا جائے؟

جمعہ 4 جون 2021

Urooj Asghar

عروج اصغر

ہمیں زندگی کے کسی بھی شعبے کو سدھارنے کے لئے کچھ بھی ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لئے کسی خاص تحقیق پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اسی طرح دنیا میں بہترین سفارتخانوں کی مثالیں بھری پڑی ہیں جن کا من و عن نفاذ اور نقالی بھی بہت بہتر نتائج دے سکتی ہے ۔
سفارتی مہارت ایک طرف مگر آپریشنل اور فنکشنل مسائل کو باآسانی سدھارا جا سکتا ہے اور اس کے کئی طریقے ہیں مگر ایک سادہ سا اور فی زمانہ ذیادہ کارگر طریقہ ایک چھوٹی سی موبائل اپلیکیشن ہے ۔


مثال کے طور پر انٹیلجنس شئیرنگ کی طرز پر سعودی وزارتِ داخلہ سے تمام پاکستانیوں کی معلومات اکٹھی کی جائیں جہاں یہ تمام ڈیٹا  جدید اصولوں کے تحت رکھا گیا ہے اور باآسانی دستیاب ہے ۔ مزید یہ کہ ہم وطنوں کو آگاہ کیا جائے کہ اگر وہ ایکسپریس سروسز تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس ایپلیکشن میں رجسٹر ہونا پڑے گا بصورت دیگر موجودہ پرانے طریقے سے خدمات بھی موجود رہیں گی ۔

(جاری ہے)

جہاں سفارتخانے کا عملہ اسے طرز پر عام طریقے سے آنے والے کو اس جدید طریقے کو اپنانے پر آمادہ کرے گا جیسے بنک میں موجود سعودی عملہ آپ کو آئن لائن بہتر خدمات کا یقین دلاتا ہے ۔
رجسٹریشن میں صارف تمام معلومات ہر ممکنہ حد تک پہلی دفعہ دے گا اور پھر وقتاً فوقتاً کفیل یا کمپنی کی تبدیلی کی صورت میں اَپ ڈیٹ کرنے پر ہی بہتر خدمت کا معیار حاصل ہوگا ۔

سعودی حکومت کی ڈیجیٹلائزیش سے تقریباً تمام حضرات ہی ان اسرار و رموز سے واقف ہیں اور بغیر کسی لیت ولال کے یہ مرحلہ طے ہوجائے گا ۔
دوسرے مرحلے میں درخواستوں اور دادرسی کے نظام کے تحت تمام سمندر پار پاکستانیوں کو ایک پلیٹ فارم دیا جائے گا بالکل وزیراعظم پورٹل کی طرح اور پاکستان میں ایک کال سینٹر یا آئی آٹی بیک أپ c اس سارے عمل کو دیکھے گی اور سفارتخانے کا عملہ ترتیب کے لحاظ سے شکایات کے دیکھے اور جانچے گا ۔

رجسٹریشن کی وجہ سے تعارف اور کاغذات کی بھی ضرورت نہیں ہوگی اور سفارتخانے میں غیر ضروری رش بھی نہیں ہوگا اور انتہائی صاف ستھرے طریقے سے ہر ممکن مسئلہ حل ہوجائے گا جیسا کہ اب سعودی عرب میں تقریباً ہر شعبے میں نافذ کردیا گیا ہے بلکہ اب پیچیدہ مسائل بھی اسی طرز پر حل ہونے لگے ہیں ۔نہ سائل کو آنے کی تکلیف اور اخراجات اور زہمت اٹھانی پڑے گی نہ سفارتخانے کے عملے کو تکلیف اور رشوت لینے کی ضرورت محسوس ہوگی اور یوں حرام کے خاتمے سے اللہ پاک سے برکت کی امید بھی رکھی جاسکے گی ۔


تیسرا اس طرح سمارٹ ریکارڈ مرتب ہوگا اور لمبے چوڑے رجسٹریوں، پرچیوں اور لفافوں سے جان چھوٹ جائے گی اور چوتھا ملک میں موجود وزارت داخلہ اور خارجہ ہمہ وقت معلومات کو دیکھ سکیں گی اور بروقت فیصلے کرسکیں گی۔ پاسپورٹ نیا بنوانا ہو یا شباختی کارڈ یا پھر نکاح نامے کے مسائل ہوں ہو پھر کوئی اور داخلی مسئلہ تقریباً تمام امراض کا شافی علاج اس اون لائن تریاق میں مضمر ہے ۔


چونکہ اب یہ ساری دنیا میں ہورہا ہے تو اس سے متعلق خدشات بھی بہت کم ہیں جبکہ اس طرح بہتر اعدادو شمار حتی کہ ترسیلاتِ زر اور مجموعی آفرادی صورتحال اور اس کے پیش نظر ممکنہ اقدامات کرنے میں بھی آسانی رہے گی اور ہم وطنوں کی غیر قانونی سرگرمیوں کو بھی کنٹرول کرنے ک ا موقع ملے گا ۔ سفارتخانے کی ٹیم مختلف شہروں میں سیر سپاٹے کرنے کے بجائے اپنے بہترین وسائل کے ساتھ مرکزی مقام اے ہی ہر شہر کے شہری کی داد رسی کرسکے گی ۔


افرادی قوت کی مالی استطاعت،صحت، تعلیم، پیشہ اور مقام بھی بہتر معلوم ہوسکے گا اور اس مربوط نظام سے وابسطہ ہونے سے دوسری اقوام میں عزت اور وقار میں بھی اضافہ ہوگا اور ساتھ ساتھ کفیل اور کمپنی سے اصتحصال رکنے کا رستہ بھئ کھلے گا ۔ کیونکہ فوراً خدمت اور حفاظت کا نظام حاصل ہونے پر ہر بیرونِ ملک پاکستانی سفارتخانے کی نظروں کے نیچے ہوگا اور کفیل اور کمپنی کو بھی اس بات کا اندیشہ رہے گا کہ سفارتخانے کی مداخلت اور قانونی مدد سے اس کے لئے مسائل کھڑے کئے جا سکتے ہیں ۔

اس لئے محض اس یک نقطہ تبدیلی سے ہی ہم اپنے نوے فیصد مسائل حل کرسکتے ہیں اور قومی وقار میں اضافہ کرسکتے ہیں ۔
ایک اور مگر اہم پہلو یہ ہے کہ اس سے ہم سعودیہ اور اسی نظام کو نافذ کر کےدوسرے ممالک کی ذیادہ سے ذیادہ معلومات حاصل کرسکتے ہیں جس سے تجارتی اور سفارتی فوائد بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح آپ کسی صف اوّل کے ملک کی کسی کمپنی سے اس کی مصنوعات کی انفارمیشن لیتے ہیں تو اگلے دن اس ملک کے آپ کے علاقے میں موجود سفارتخانے سے آپ کو فون آجاتا ہے اور وہ آپ کو ان مصنوعات تک پہنچنے کے لئے ہر ممکن مدد فراہم کرتے ہیں بالکل اسی طرح ہمارا سفارتخانہ بھی اس خودکار طریقے سے ملک میں سرمایہ ماری بھی بڑھا سکتا ہے اپنی مصنوعات کے لئے منڈی بھی تلاش کرسکتا ہے اور سیاحت کے فروغ کے اسباب بھی پیدا کرسکتا ہے جو کہ پہلے کی نسبت اب کم وسائل میں ممکن ہے کیونکہ اون-لائن نظام کے زریعے پاکستان میں موجود عملے سے بھی کام لیا جاسکتا ہے اور کم سفارتی اور خدماتی عملے سے اخراجات بھی کم ہونگے اور لوگوں کو بھی دُگنا فائدہ ہوگا ۔


اس نظام کے آنے سے نہ تو سفراء کو اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے پھرتیاں دکھانی ہونگی نہ ہی سوشل میڈیا اور برساتی صحافیوں کے زریعے کسی تشہیر کی ضرورت ہوگی ۔ اسی طرز کا نظام اگر پاکستان کے باقی سفارتخانوں میں بھی رائج کردیا جائے تو وزیراعظم کو سفیروں سے خطاب کی زحمت بھی نہیں اٹھانی پڑے گی اور سفیروں کو بلاوجہ توجیہات بھی پیش نہیں کرنی پڑیں گی۔

جیسا کہ بار بار بتایا جاچکا ہے کہ یہ کوئی نئی چیز یا ارتقائی مراحل طے کرتا فارمولا ہر گز نہیں بلکہ ایک مصدقہ اور مسّلمہ طریقہ کار ہے جو جنوبی کوریا کے سفارتخانوں میں گزشتہ دس سالوں سے کام کرہا ہے اور تقریباً ہر دوسری جگہ موجود ہے جسے کچھ تھوڑی بہت تبدیلیوں کے بعد ہماری ضرورتوں کے عین مطابق رات و رات قابل عمل کیا جاسکتا ہے جس کہ لئے کسی خاص تربیت کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم سب کسی نہ کسی طرح اپنے سمارٹ فونز سے کہیں نہ کہیں بالکل اسی طرز کی خدمات سے ایک لمبے عرصے سے مستفید ہورہے ہیں ۔

امید ہے کہ اربابِ اختیار کی بھی وہی نیت ہے جو مقاصد اس نظام سے مطلوب ہیں اور اس معاملے میں جلد از جلد عملی اقدامات کئے جائیں گے ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب مل کر اس پیغام یا درخواست کو متعلقہ حکام کو گوش گزار کریں اور اپنے حقوق کے حصول کے اس سہل و آسان ترین طریقے کو جلد از جلد نافذ العمل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :