یوم مزدور اور میرا کردار

بدھ 1 مئی 2019

 Waheed Ahmad

وحید احمد

ایک اچھی زندگی جس میں ہر طرف عیش و آرام ہو، ہر فکر سے آزادی ہو، بچوں کا روشن مستقبل اوراچھے سکولوں میں پڑھائی ایک خواب نہیں بلکہ دسترس میں ہواور اس جیسی ہزاروں خواہشات انسان کی سوچ میں آنا ایک فطری عمل ہے۔ان تمام خواہشات کی تکمیل کے لیے کوئی بھی انسان ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے،دن رات محنت مشقت کرتا ہے ، یہ تمام خواہشات آپکے اور میرے علاوہ ایک ٹوٹی ہوئی کٹیا جس میں چند برتنوں اور ٹوٹی ہوئی کھاٹ کے سوا کوئی سامان نہیں میں بسنے والے سن رسیدہ جوڑے ،فٹ پاتھ کو نرم آرام دہ بستر اور اینٹ کو تکیہ بنانے والے بے خانماں، راولپنڈی کے راجہ بازار میں ایک خمیدہ کمر بوڑھے کو جو اپنے ناتواں کندھوں پر ایک چھوٹے ٹرک کے سائز کاریڑھا کھینچ رہا ہو، تپتی اور جھلسا دینے والی گرمی میں نئی تعمیر ہونے والی سڑک پر تارکول سے بھری ہوئی گاڑی جس میں دہکتی ہوئی آگ جہنم کا سماں پیش کر رہی ہوتی ہے کے پیچھے چل کر بجری اور پتھر پھینکے والے مزدوروں کے دل میں بھی آتا ہے جن میں مرد و زن کی کوئی تفریق نہیں ہوتی اور وہ صرف اپنا اور اپنے بچوں کا شکم بھرنے کے لیے اس دہکتی ہوئی سڑک اور چلچلاتی دھوپ میں بنا آرام کیے دن بھر اپنے کام میں مگن رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

اینٹوں کے بھٹوں پر شدید گرمیوں کے موسم میں جب اینٹیں پک رہی ہوتی ہیں اور اس بھٹی کی گرمی کی وجہ سے سورج ویسے ہی سوا نیزے پر محسوس ہونے لگ جاتا ہے کوئلوں کو دہکانے والے یا تپتی دھوپ میں اپنے ہنرمند ہاتھوں سے سانچوں کے ذریعے بے ڈھب اور بد شکل مٹی کو خوبصورت اینٹوں کی شکل دینے والے پتھیروں اور پتھیرنیوں کے دل میں بھی ایک ارمان مچلتا ہوگا کہ اس تپتی اور چلچلاتی دھوپ میں ایک نرم گداز بستر اور ٹھنڈا کمرا ہو جو انکی راحت کا سامان بنے اور وہ بھی اپنے بچوں کو شرارتیں کرتے، مچلتے ہوئے دیکھیں۔

دہکتے ہوئے تندور پر جھک کر روٹیاں لگانے والا بھی شائد پسینہ پونچھتے ہوئے سوچتا ہوگا کہ اسے بھی کھانا ایک پنکھے کے نیچے ملے جسے وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مل کر کھا سکے لیکن افسوس یہ ان سب کے بس میں نہیں ہے، مزدور جو ٹھہرے۔مان لیا مزدور ہیں مان لیا لاچار اور بے بس ہیں مان لیا پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے سردو گرم کی پروا کیے بغیر نکل کھڑے ہوتے ہیں مان لیا انکی پوری نسل چھوٹے بچوں سے لے کر بڑھاپے میں پہنچے والدین تک سب کے سب کہیں نہ کہیں محنت مزدوری کر رہی ہے، کہیں نہ کہیں کسی مالکن کی گالیاں،کسی زمیندار کی جھڑکیاں، کسی وڈیرے کی لاتیں اور ٹھڈے کھا رہی ہے،تو کھانے دو، سننے دو، سہنے دو، کرنے دو انکو مزدوری۔

۔۔مرنے دو انکو کیڑے مکوڑوں کی طرح، جلنے دو انکو دھوپ میں، برداشت کرنے دو ان کو مجھ جیسے باشعور پڑھے لکھے اور صاحب حیثیت کے مظالم،کیونکہ میں نے عدالت میں جا کر کس"غریب" کلائینٹ کی داد رسی کرنی ہے، کیونکہ میں نے کسی مزدور کو ساتھ کھڑا کر کے سیلفیاں بنانی ہیں اور اسکے جانے کے بعد کپڑے جھاڑتے ہوئے دوست سے کہنا ہے کہ نئے کپڑے خراب کر دیے بدذات نے، کیونکہ میں نے کسی سیمینار میں جا کر مزدوروں کے حقوق کا لمبا چوڑا بھاشن دینا ہے جس سیمینار میں چند میرے جیسے امراء اور مالک بھی ہوں گے جوسیمینار میں آنے سے پہلے اپنے نوکر، ملازم یا ملازمہ کو ان کی اوقات یاد دلا کر آئے ہونگے، اپنے بچے کے لیے بڑی کھلونا گاڑی لے کر آتے ہوئے اپنی ملازمہ بچی کو اس بے جان کھلونے کا خیال رکھنے کے لیے گاڑی کی ڈکی میں ٹھونس کے لائے ہوں گے۔


یوم مزدور پر میرا کیا کردار ہے؟یکم مئی، یوم مزدور آگیا، دنیا بھر میں مزدور اس چھٹی سے بے خبر مزدوری کر رہے ہیں اورمیں اپنے آرام دہ کمرے میں انہی مزدوروں کی محنت اور خون پسینے کے صدقے سے ملی ہوئی چھٹی گھر بیٹھے انجوائے کر رہا ہوں، فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام اور واٹس ایپ پر انکی حمائیت میں تصاویر اور اشعار اپلوڈ کر تے ہوئے اپنے حلقہ احباب پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ مجھ سے بڑا مزدور دوست اس کائنات نے آج تک پیدا نہیں کیا، اسی اثنا میں مجھے پیاس کا احساس ہوتا ہے، ملازمہ کو آواز دیتا ہوں، مجھے پانی کا گلاس لا کر دو، چند منٹ کے بعد ایک پھول سی بچی اپنے نازک ہاتھوں میں پانی کا گلاس پکڑے کمرے میں داخل ہوتی ہے اور معصوم آواز میں پکارتی ہی"بڑے صاحب پانی" ۔

ایک زناٹے دار تھپڑ بچی کے گالوں پر رسید کرتے ہوئے میرا جواب، بدتمیز، جاہل، نکمی، کام چور، ایک گھنٹا ہوگیا پانی مانگے ہوئے، کہا مر گئی تھی اور ساتھ ہی فیس بک پر چائلڈ لیبر اور ان کے حقوق کے لیے جاری ایک بحث میں شامل ہوجاتا ہوں۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ ء مزدور کے اوقات

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :