کنٹینروں سے آزادی مارچ رک جائے گا؟

جمعرات 24 اکتوبر 2019

Waqar Fani Mughal

وقار فانی مغل

اداروں سے کوئی لڑائی نہیں کے بیانیہ نے آزادی مارچ کو ایسی ہوا دے دی ہے کہ ارباب اقتدار نے گرین بیلٹ اور اوور ہیڈ برج ،تمام یو ٹرن کنٹینروں سے بھر دیے ہیں پہلی دفعہ سننے میں آیا ہے کہ پورا اسلام آباد کنٹینروں سے بند کر دیا جائے گا مگر کیا کنٹینروں سے آزادی مارچ رک جائے گا،جھوٹ کی سیاست دوام پا لے گی،عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دینے والی پالیسیاں چلتی رہیں گی،ایسا ممکن نہیں ۔

عام آدمی جسے خاموش اکثریت کہا جاتا ہے وہ اس نظام سے تنگ ہے۔ تبدیلی کا خواب اندھے کا خواب بن چکا ہے لاقانونیت ہے،انصاف دینے والوں نے نہ انصاف دیا نہ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم۔۔۔بغض نواز شریف میں عام آدمی کو دکھایا گیا خواب گلے پھنسی ہڈی کی صورت اب تنگ کئے جا رہا ہے ایسے میں اگر کوئی عالم دین علم آزادی لے کر نکلنے کا اعلان کر دے تو خاموش اکثریت بھلا کیسے ساتھ نہ دے گی۔

(جاری ہے)


اس بار اکتوبر میں مارچ کے اعلان نے عام آدمی کو متوجہ کیا ہے فالورز اور کارکنان کی تعداد اپنی جگہ مگر جب مہنگائی کا مارا ،جس کے خواب ٹوٹے ہیں جب وہ باہر نکلے گا تو صورتحال قابو میں نہیں رہے گی۔پہلی بات تو سب پر عیاں ہے کہ اس آزادی مارچ کا راہ نما کوئی عام ملاں نہیں ہے،دوسری بات مارچ پلانٹڈ نہیں تیسری بات یہ 100 سالہ تاریخ کی حامل جماعت والے ہیں ہر گز کرایہ خرچہ لے کر جانے والے نہیں۔

۔۔۔
عدالت عالیہ نے حکومتی درخواست کے خلاف آزادی مارچ کی اجازت بھی دے دی ہے میڈیا میں بھی سرگوشیاں تیزی پکڑ رہی ہیں،ایکس ٹینشن والے بھی ٹینشن لینے کے متحمل نہیں ہیں ان کے سارے کام تقریبا ہو چکے ہیں اب اگر کوئی حقیقی تبدیلی لاتا ہے یا کسی کا استعفیٰ مانگتا ہے تو عذر کیسا،رکاوٹ کیوں کر۔۔
بات مولانا فضل الرحمان ولد مفتی محمود کی ہو تو یہ کھنگالنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ پشت پر کون ہے؟بار بار مذاکرات کی بات کیوں ؟نہ بیرون ملک جائیداد نہ یہاں کوئی شوگر مل نہ کارخانے ۔

۔ابے خدا کے بندو مدارس والے کب کسی کے محتاج ہوئے سوائے اپنے خالق کے۔ماضی کے کنٹینر ناچ گانے ،قادری اور رضوی احتجاج کے برعکس آزادی مارچ کے اعلان سے ہی اعلیٰ ایوانوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔یہ مارچ مہنگائی،بد امنی اور حکومتی ناکامی کے خلاف ہے اس کا کوئی خفیہ ایجنڈا ہے ہی نہیں تو پھر پکڑ دھکڑ اور راستوں کی بندش سعی لاحاصل ہو گی۔

یہ بات بھی اشارہ ہے کہ دو چوٹی کے سیاستدان جن میں سے ایک ترقی کا بادشاہ اور دوسرا مفاہمتی سیاست کا امین جانا جاتا ہے کو بھی جیلوں سے ہسپتال منتقل کیا جا چکا ہے،اندر کی تاریکی ٹک ٹاک گرل نے عیاں کر دی ہے ،جب سے مائینس خان کی بات چلی ہے گدی نشین معنی خیز مسکراہٹ کے تبادلے جاری رکھے ہوئے ہیں۔پانچ روز کے مارچ میں عام آدمی بھی مولانا کے فالورز کے ساتھ ہوں گے کیوں کہ زندگی عام آدمی کی اجیرن کر دی گئی ہے،روٹی دینے کے دعویداروں نے نوالہ چھین لیا ہے،اشیاء ضروریہ کی قیمتوں کو آگ لگی ہوئی ہے۔

ہو سکتا ہے مولانا فضل الرحمان کو” ڈیزل “کہہ کر مخاطب کرنے والے ”یہودی ایجنٹ “پھر کسی ایمپائر کو ڈھونڈنے لگیں اور تاریخ اسی ملاں کو نجات دھندہ بنا دے؟ ہو سکتا ہے ۔۔۔ہونے کو کیا نہیں ہو سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :