ویکسین نہ ملنے سے مرتے بچے

بدھ 25 ستمبر 2019

Waris Bin Azam

وارث بن اعظم

خدمت میں سب سے آگے کا نعرہ لگانے والی سندھ سرکار کی انتظامی نا اہلی کی ایک سے بڑھ کر ایک مثال سامنے آرہی ہے، کہیں پل نہ ہونے سے بچے جانیں داؤ پر لگا کر اسکول جارہے ہیں ، مرکے بھی چین نہ آنے کے مترادف میتوں کو تھرموپول شیٹ پر رکھ کر نہر پار کروائی جارہی ہیں، ٹڈی دل کے حملوں سے لاکھوں ایکڑ فصلیں تباہ ہوگئی ہیں، بارشوں کے بعد سندھ بھر کی سڑکوں کی تباہی کی صورتحال بھی سامنے ہے، کراچی کے کچرے پر سیاست ہورہی ہے، تو وہیں کتے کے کاٹے کی ویکسین نہ ملنے سے بھی بچے مرنا شروع ہوگیے ہیں، بے نظیر کے لاڑکانہ میں بچہ کتے کاٹے کی ویکسین نہ ملنے سے تڑپ تڑپ کر مرگیا ، لیکن بے نظیر کے ہی صوبے میں موجود کروڑوں روپے مالیت سے تیار کی گئی لیبارٹری کو فعال نہیں کیا جاسکا ہے۔

(جاری ہے)


پاکستان اینٹی ڈاگ بائٹس ویکسین بھارت سے برآمد کرتا تھا جسے ماہ فروری میں پاک بھارت کشیدگی کے باعث روک دیا گیا جس کے بعد سندھ بھر میں ویکسین کی کمی پیدا ہو گئی، صورتحال اس قدر خطرناک ہوگئی کہ ویکسین کی کمی کے باعث بچوں نے اپنی ماؤں کی گود میں تڑپ تڑپ کر مرنا شروع کردیا ہے۔
سترہ ستمبر کے روز شکارپور کے رہائشی دس سالہ میر حسن کو اے آر وی ویکسین نہ ملی اس کی ماں اسے اٹھائے در در بھٹکتی رہی جس کے بعد وہ کشمنر آفس لاڑکانہ کے باہر زمین پر اپنے لخت جگر کو لے کر بیٹھ گئی اور بچے کی زندگی کی بھیک مانگتی رہی مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا، وہ بچہ اپنی ماں کی گود میں ہی تڑپ تڑپ کر مرگیا، واقعے کی ویڈیو وائرل ہوئی جس نے دیکھا لرز کر رہ گیا۔


خدمت میں سب سے آگے کا نعرہ لگانے والی سندھ سرکار کے اپنے آبائی شہر لاڑکانہ جسے پیرس کہا جاتا ہے وہیں ایک دس سالہ معصوم بچہ تڑپ تڑپ کرمرگیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں سال رواں کے ابتدائی 8 ماہ میں ایک لاکھ 22 ہزار 566 افراد سگ گزیدگی کا شکار ہوچکے ہیں جن میں ہر عمر کے شہری، خواتین، بچوں اور بزرگ شامل ہیں۔سگ گزیدگی کے نتیجے میں اب تک 13 قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔


یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ضلع شہید بے نظیرآباد (نواب شاہ) کے شہر سکرنڈ میں سانپ اور کتے کے کاٹے سے بچاؤ کی ویکسین تیار کرنے والے سندھ کی واحد اور پاکستان کی دوسری اینٹی اسنیک وینوم اور اینٹی ڈوگ بائٹ لیبارٹری بھی موجود ہے، جسے سندھ حکومت اب تک مکمل طور پر فعال ہی نہیں کرسکی ہے۔

مذکورہ لیبارٹری پہلے تھرپارکر میں قائم ہونا تھی بعدازاں کچھ مسائل کے باعث اسے سکرنڈ میں پئی فاریسٹ کے قدیمی جنگلات کے قریب قائم کیا گیا، سال دوہزار بارہ میں اس لیبارٹری کا کام پایہ تکمیل تک پہنچا جس کے بعد اسی سال لیبارٹری میں اسٹاف کی بھرتی کی گئی اور چند ماہ کام کرنے کے بعد لیبارٹری میں کام رک گیا اور اس وقت سوائے لوئر اسٹاف کے لبیارٹری میں کوئی موجود نہیں ہے جس سے کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار کی جانی والی عالی شان بلڈنگ اور ادویات بنانے والی مہنگی ترین مشینری خراب ہورہی ہیں۔


ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سانپوں کے کاٹنے کے سالانہ پچھتر ہزارکیس فائل ہوتے ہیں جن میں سے پندرہ ہزار سالانہ سندھ میں لوگ سانپ سے ڈسے جاتے ہیں اور تقریباً سات ہزار پانچ سو مریض سانپ کے کاٹنے کے بعد صحیح طرح سے اسکی ویکیسن حاصل کرپاتے ہیں جبکہ زیادہ تر دیسی اور گھریلو ٹوٹکے استعمال کرتے ہیں جس سے بیشتر قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔


سکرنڈ کے رہائشی محمد یعقوب منگریو کی جانب سے مذکوہ لیبارٹری کے غیر فعال ہونے پر سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کی گئی ہے، دو اگست دو ہزار انیس کو پٹیشن کی سماعت کے دوران عدالت نے چیف سیکریٹری سندھ کو طلب کرتے ہوئے لیبارٹری کو فنڈز فراہم کرکے فعال کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت میں سماعت سے قبل چیف سیکریٹری سندھ نے اینٹی اسنیک وینوم اور اینٹی ڈوگ بائٹ لیبارٹری کا اچانک دورہ کیا تھا ، دورے کے دوران لیبارٹری کے انچارج نعیم قریشی کی جانب سے انہیں لیبارٹری کا دورہ کروایا گیا اورلیبارٹری میں تیار ہونے والی اسنیک وینوم بنانے کے عمل سے آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ لیبارٹری کے مکمل طور پر فعال نہ ہونے کے اسباب بتائے گئے تھے، اس کے باوجود بھی لیبارٹری کو فعال نہیں کیا جاسکا ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :