پی ایس 11 الیکشن، چاپلوسی جیت گئی

پیر 30 ستمبر 2019

Waris Bin Azam

وارث بن اعظم

چاپلوسی یا خوشامدی ایک ایسا لفظ ہے جس سے بڑے بڑے شیر ڈھیر ہوجاتے ہیں، چاپلوس شخص بہت سے قابل اور لائق افراد کا حق مارتے ہوئے ایک سیڑھی کے دو ٹپے ایک ساتھ پھلانگتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے، حقیقت میں چاپلوسی ایک غلط ترین عمل ہے، ایک تو اس سے دوسرے شخص کی حق تلفی ہوتی ہے تو دوسرا کسی لائق کی جگہ نالائق بندہ غالب ہوجاتا ہے۔
یہی کچھ صورتحال سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس گیارہ (لاڑکانہ) کے ہونے والے ضمنی انتخابات میں سامنے آرہی ہے، پی ایس گیارہ کے دو ہزار اٹھارہ کو ہونے والے عام انتخابات میں جی ڈی اے کے حمایت یافتہ معظم علی خان نے 32178 ووٹ حاصل کرکے پیپلز پارٹی سندھ کے صوبائی صدر نثار احمد کھوڑو کی صاحبزادی ندا کھوڑو کو شکست دی تھی، مذکورہ الیکشن میں ندا کھوڑو 21811 ووٹ حاصل کرسکی تھیں۔

(جاری ہے)

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عام انتخابات میں نثار کھوڑو نے اس نشست پر فارم جمع کروائے تھے جو کہ اپنی شادی سے متعلق غلط معلومات دینے پر مسترد کردیے گئے تھے جس کے بعد ان کی صاحبزادی ندا کھوڑو نے اس نشست سے انتخاب لڑا اور دس ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست کھائی، لیکن پارٹی کی کرم نوازی سے ندا کھوڑو خواتین کی مخصوص نشست پر اسمبلی کی رکن بن گئی، عام انتخابات کے بعد ندا کھوڑو نے معظم عباسی کی جانب سے اپنے اثاثہ جات صحیح طرح ظاہر نہ کرنے پر درخواست دائر کی، جس پر سپریم کورٹ نے مذکورہ نشست پر دوبارہ انتخابات کروانے کا حکم جاری کیا۔


بات شروع چاپلوسی سے ہوئی تھی،اب واپس اس جانب آتے ہیں، پی ایس گیارہ لاڑکانہ ٹو پر دوبارہ الیکشن شیڈول جاری ہوا، میڈیا پر تواتر سے خبریں آئیں کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی صاحبزادی آصفہ بھٹو اس نشست سے الیکشن لڑیں گی، پارٹی میں موجود کچھ سینیئر رہنماؤں کے مطابق اگر عام انتخابات میں لیاری والی نشست بلاول بھٹو جیت جاتے تو وہاں سے ضمنی انتخاب میں آصفہ نے الیکشن لڑنا تھا، خیر یہ تو ممکن نہ ہوسکا لیکن پی ایس گیارہ میں دوبارہ انتخابات کے اعلان کے بعد ایک بار پھر آصفہ بھٹو خبروں کی زینت بنیں، یہاں تک کہ انہیں الیکشن جیتنے کے بعد وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کی نیب کے ہاتھوں ممکنہگرفتاری کے بعد وزیر اعلی سندھ کے عہدے پر براجمان کرنے کی خبریں بھی گردش کرتی رہیں، لیکن پارٹی نے ٹکٹ کا اعلان کیا اور قرعہ فعال جمیل سومرو کے نام نکلا۔


جیسا کہ بات شروع چاپلوسی سے ہوئی تھی تو اب آتے ہیں جمیل سومروپر، جمیل سومرو بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ سائے کی طرھ چپکے رہتے ہیں، پارٹی کے جیالوں سے لے کر مرکزی عہدیدار، صوبائی عہدیدار ، ذیلی ونگ کے رہنماؤں اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو کے درمیان کوئی دیوار ہے تو وہ جمیل سومرو ہے، پی ایس گیارہ کے الیکشن ٹکٹ سے قبل جمیل سومرو کو بلاول کے پیچھے کھڑا ہوا دیکھا جاتا تھا، اسے ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی، لیکن اب چاپلوسی اتنی کامیاب ہوئی کہ یہ بندہ ٹکٹ لے اڑا۔


پارٹی کے سینیئر رہنماؤں کے مطابق جمیل سومرو بلاول بھٹو پر اتنے غالب ہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر کوئی بلاول سے ملاقات نہیں کرسکتا، جمیل سومرو نے بلاول کے کچھ دیگر اسسٹنٹ کے ساتھ مل کر ایک باقائدہ لابی بنا رکھی ہے۔
پیپلز پارٹی جسے عام ورکر کی جماعت کہا جاتا تھا وہ اب کچھ افراد کی مٹھی میں بند ہوکر رہ گئی ہے، جمیل سومرو بھی ان کچھ افراد میں شامل ہے، پارٹی میں قائدین اور جیالوں میں فاصلے خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں، جیالے جمیل سومرو کی نامزدگی سے خوش نہیں ہیں، سوشل میڈیا پر اس متعلق پوسٹیں تواتر سے گردش کررہی ہیں، جمیل سومرو کے حمایتی انہیں ڈیفیند کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ان افراد کی جانب سے جمیل سومرو کی چاپلوسی کرتے ہوئے سامنے والے کو مغلظات بھی بی جارہی ہیں۔


گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے ایک رہنما سے ملکی صورتحال پر تبادلہ خیال جاری تھا کہ پی ایس گیارہ کا ذکر چھڑا تو مذکورہ رہنما جمیل سومرو کی نامزدگی پر سخت نالاں نظر آئے، پیپلز پارٹی کے اتار چڑھاؤ کا ذکر کرتے ہوئے موصوف نے غم ذدہ لہجے میں کہا کہ چیئرمین پیپلز پارٹی، جیالوں کے درمیان رہنا چاہتے ہیں ، جیالوں کے درمیان آنے والی دوریاں ختم کرنا چاہتے ہیں، اور یہ جیالے ہی ہیں جو انہیں وزیراعظم بنائیں گے لیکن جمیل سومرو جیسے کچھ عناصر نے بلاول بھٹو کو سیکیورٹی کا بہانہ بنا کر جیالوں سے دور کررکھا ہے۔


پی ایس گیارہ (لاڑکانہ ٹو) میں ٹوٹل 152614 ووٹرز ہیں جن میں 83016 مرد جبکہ 69598 خواتین ووٹرز ہیں اور دس ہزار سے زائد ووٹوں سے دوہزار اٹھارہ کے انتخابات میں مذکورہ نشست ہارنے والی پیپلز پارٹی کو جمیل سومرو کی نامزدگی کے بعد اسے جیتنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگانا پڑے گا اور اب وقت ہی بتائے گا کہ آیا چاپلوسی کامیاب ہوتی ہے یا پارٹی کو جمیل سومرو کی نامزدگی کی صورت میں سبکی اٹھانی پڑے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :